The Book of the Merits of the Companions
Sahih Muslim Hadith # 6359
Hadith on The Book of the Merits of the Companions of Sahih Bukhari 6359 is about The Book Of The Book of the Merits of the Companions as written by Imam Muslim. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter The Book of the Merits of the Companions has 331 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ، وَكَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ، فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا، فَنَزَلْنَا عَلَى خَالٍ لَنَا، فَأَكْرَمَنَا خَالُنَا وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا، فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ فَقَالُوا: إِنَّكَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَهْلِكَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ، فَجَاءَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ فَقَدْ كَدَّرْتَهُ، وَلَا جِمَاعَ لَكَ فِيمَا بَعْدُ، فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا، فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا، وَتَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ فَجَعَلَ يَبْكِي، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ، فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِهَا، فَأَتَيَا الْكَاهِنَ، فَخَيَّرَ أُنَيْسًا، فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِهَا مَعَهَا [ص:1920]. قَالَ: وَقَدْ صَلَّيْتُ، يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ، قُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، قُلْتُ: فَأَيْنَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي، أُصَلِّي عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَاءٌ، حَتَّى تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ. فَقَالَ أُنَيْسٌ: إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ فَاكْفِنِي، فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّى أَتَى مَكَّةَ، فَرَاثَ عَلَيَّ، ثُمَّ جَاءَ فَقُلْتُ: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا بِمَكَّةَ عَلَى دِينِكَ، يَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَهُ، قُلْتُ: فَمَا يَقُولُ النَّاسُ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: شَاعِرٌ، كَاهِنٌ، سَاحِرٌ، وَكَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَاءِ. قَالَ أُنَيْسٌ: لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ، فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ، وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ، فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَى لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي، أَنَّهُ شِعْرٌ، وَاللهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ، وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ. قَالَ: قُلْتُ: فَاكْفِنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ، قَالَ فَأَتَيْتُ مَكَّةَ فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَقُلْتُ: أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ؟ فَأَشَارَ إِلَيَّ، فَقَالَ: الصَّابِئَ، فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِكُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ، حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ، قَالَ: فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ، كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَاءَ: وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا، وَلَقَدْ لَبِثْتُ، يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ، بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ [ص:1921]. قَالَ فَبَيْنَا أَهْلِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَاءَ إِضْحِيَانٍ، إِذْ ضُرِبَ عَلَى أَسْمِخَتِهِمْ، فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ. وَامْرَأَتَانِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا، وَنَائِلَةَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا فَقُلْتُ: أَنْكِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَى، قَالَ: فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ فَقُلْتُ: هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ، غَيْرَ أَنِّي لَا أَكْنِي فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ، وَتَقُولَانِ: لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا قَالَ فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَهُمَا هَابِطَانِ، قَالَ: «مَا لَكُمَا؟» قَالَتَا: الصَّابِئُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا، قَالَ: «مَا قَالَ لَكُمَا؟» قَالَتَا: إِنَّهُ قَالَ لَنَا كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ، وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَصَاحِبُهُ، ثُمَّ صَلَّى فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ - قَالَ أَبُو ذَرٍّ - فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ، قَالَ فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ: «وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللهِ» ثُمَّ قَالَ «مَنْ أَنْتَ؟» قَالَ قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ، قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: كَرِهَ أَنِ انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ، فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ، فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: «مَتَى كُنْتَ هَاهُنَا؟» قَالَ قُلْتُ [ص:1922]: قَدْ كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، قَالَ: «فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ؟» قَالَ قُلْتُ: مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا أَجِدُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: «إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللهِ ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، فَفَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا، فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ وَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا، ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ، لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ؟ عَسَى اللهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَيَأْجُرَكَ فِيهِمْ» فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، فَأَتَيْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، فَاحْتَمَلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَكَانَ سَيِّدَهُمْ. وَقَالَ نِصْفُهُمْ: إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا، فَقَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمُ الْبَاقِي وَجَاءَتْ أَسْلَمُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِخْوَتُنَا، نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ، فَأَسْلَمُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «غِفَارُ غَفَرَ اللهُ لَهَا، وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللهُ»،
ہداب بن خالد ازدی نے کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حمید بن ہلال نے عبداللہ بن صامت سے خبر دی ، انھوں نے کہا ، کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ، میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تینوں اپنی قوم غفار میں سے نکلے جو حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے ۔ پس ہم اپنے ایک ماموں کے پاس اترے ۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی تو اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور ( ہمارے ماموں سے ) کہنے لگے کہ جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے ۔ وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے یہ بات ( حماقت سے ) مشہور کر دی ۔ میں نے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ بھی خراب ہو گیا ہے ، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا اور ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا ۔ ہم چلے ، یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے ۔ انیس نے ہمارے اونٹوں کے ساتھ اتنے ہی اور کی شرط لگائی ۔ پھر دونوں کاہن کے پاس گئے تو کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے ۔ پس انیس ہمارے پاس سارے اونٹ اور اتنے ہی اور اونٹ لایا ۔ ابوذر نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے تین برس پہلے نماز پڑھی ہے ۔ میں نے کہا کہ کس کے لئے پڑھتے تھے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ۔ میں نے کہا کہ کدھر منہ کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ادھر منہ کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا ۔ میں رات کے آخر حصہ میں عشاء کی نماز پڑھتا اور سورج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح پڑ رہتا تھا ۔ انیس نے کہا کہ مجھے مکہ میں کام ہے ، تم یہاں رہو میں جاتا ہوں ۔ وہ گیا اور اس نے آنے میں دیر کی ۔ پھر آیا تو میں نے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولا کہ میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے ۔ میں نے کہا کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اس کو شاعر ، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں ۔ اور انیس خود بھی شاعر تھا ۔ اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد شعر کی طرح نہ جڑے گا ۔ اللہ کی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں ۔ میں نے کہا کہ تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں ۔ پھر میں مکہ میں آیا تو میں نے ایک ناتواں شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا ( اس لئے کہ طاقتور شخص شاید مجھے کوئی تکلیف پہنچائے ) ، اور اس سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی ( بےدین ) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ صابی ہے ( جب تو صابی کا پوچھتا ہے ) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا ، یہاں تک کہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا ۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں ( یعنی سر سے پیر تک خون سے سرخ ہوں ) ۔ پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا ۔ پس اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا ( جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا ) ۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں ( موٹاپے سے ) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی ۔ ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے کہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہ کرتا تھا ، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں ( اساف اور نائلہ مکہ میں دو بت تھے اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی اور کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا ، اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے ) ، وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں ۔ میں نے کہا کہ ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو ( یعنی اساف کا نائلہ سے ) ۔ یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں ۔ پھر میں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے فلاں میں لکڑی ( یعنی یہ فخش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ سے ) اور میں نے کنایہ نہ کیا ( یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی بلکہ ان مردود عورتوں کو غصہ دلانے کے لئے اساف اور نائلہ کو کھلم کھلا گالی دی ، جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں ) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی ہوتا ( جو اس شخص کو بے ادبی کی سزا دیتا ) ۔ راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور وہ پہاڑ سے اتر رہے تھے ۔ انہوں نے عورتوں سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس صابی نے کیا کہا؟ وہ بولیں کہ ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے ( یعنی اس کو زبان سے نہیں نکال سکتیں ) ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، یہاں تک حجراسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی ۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اول میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہا کہ السلام علیکم یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وعلیک ورحمۃ اللہ ۔ پھر پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں نے کہا کہ غفار کا ایک شخص ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں ( جیسے کوئی ذکر کرتا ہے ) میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنا برا معلوم ہوا کہ میں ( قبیلہ ) غفار میں سے ہوں ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ( سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے جو مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال جانتے تھے مجھے روکا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے کھانا کون کھلاتا ہے؟ میں نے کہا کہ کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے ۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آج کی رات اس کو کھلانے کی اجازت مجھے دیجئے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کی سوکھی ہوئی کشمش نکالیں ، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا ۔ پھر میں رہا جب تک کہ رہا ، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک کھجور والی زمین دکھلائی گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمین یثرب کے سوا کوئی اور نہیں ہے ۔ ( یثرب مدینہ کا نام تھا ) ، پس تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے ، شاید اللہ تعالیٰ ان کو تیری وجہ سے نفع دے اور تجھے ثواب دے ۔ میں انیس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا کہ تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی ۔ وہ بولا کہ تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی ۔ پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے وہ بولی کہ مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے تصدیق کی ۔ پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا ، یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے ۔ آدھی قوم تو مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایماء بن رحضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا ۔ اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور ( قبیلہ ) اسلم کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غفار کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچا دیا ۔
Abdullah b. Samit reported that Abu Dharr said: We set out from our tribe Ghafir who look upon the prohibited months as permissible months. I and my brother Unais and our mother stayed with our maternal uncle who treated us well. The men of his tribe fell jealous and they said: When you are anay from your house, Unais commits adultery with your wife. Our -naternal uncle came and he accused us of the sin which was conveyed to him. I said: You have undone the good you did to us. We cannot stay with you after this. We came to our camels and loaded (our) luggage. Our maternal uncle began to weep covering himself with (a piece of) cloth. We proceeded on until we encamped by the side of Mecca. Unais cast lot on the camels (we had) and an equal number (above that). They both went to a Kahin and he made Unais win and Unais came with our camels and an equal number along with them. He (Abu Dharr) said: My nephew, I used to observe prayer three years before my meeting with Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ). I said: For whom did you say prayer? He said: For Allah. I said: To which direction did you turn your face (for observing prayer)? He said: I used to turn my face as Allah has directed me to turn my face. I used to observe the night prayer at the time of the end of night and I fell down in prostration like the mantle until the sun rose over me. Unais said: I have a work in Mecca, so you better stay here. Unais went until he came to Mecca and he came to me late. I said: What did you do? He said: I met a person in Mecca who is on your religion and he claims that verily it is Allah Who has sent him. I said: What do the people say about him? He said: They say that he is a poet or a Kahin or a magician. Unais who was himself one of the poets said. I have heard the words of a Kahin but his words in no way resemble his (words). And 1 also compared his words to the verses of poets but such words cannot be uttered by any poet. By Allah, he is truthful and they are liars. Then I said: you stay here, until I go, so that I should see him. He said: I came to Mecca and I selected an insignificant person from amongst them and said to him: Where is he whom you call as-Sabi? He pointed out towards me saying: He is Sabi. Thereupon the people of the valley attacked me with sods and bows until I fell down unconscious. I stood up after havin. regained my consciousness and I found as if I was a red idol. I came to Zamzarn and washed blood from me and drank water from it and listen, O son of my brother, I stayed there for thirty nights or days and there was no food for me but the water of Zamzarn. And I became so bulky that there appeared wrinkles upon my stomach, and I did not feel any hunger in my stomach. It was during this time that the people of Mecca slept in the moonlit night and none was there to eircumambulate the House but only two women who had been invoking the name of Isafa, and Na'ila (the two idols). They came to me while in their circuit and I said: Marry one with the other, but they did not dissuade from their invoking. They came to me and I said to them: Insert wood (in the idols' private parts). (I said this to them in such plain words) as I could not express in metaphorical terms. These women went away crying and saying: Had there been one amongst our people (he would have taught a lesson to you for the obscene words used for our idols before us). These women met Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and Abu Bakr who had also been coming down the hill. He asked them: What has happened to you? They said: There is Sabi, who has hidden himself between the Ka'ba and its curtain. He said: What did he say to you? They said: He uttered such words before us as we cannot express. Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) came and he kissed the Black Stone and circumambulated the House along with his Companion and then observed prayer, and when he had finished his prayer, Abu Dharr said: I was the first to greet him with the salutation of peace and uttered (these words) in this way; Allah's Messen- ger, may there be peace upon you, whereupon he said: It may be upon you too and the mercy of Allah. He then said: Who are you? I said: From the tribe of Ghifar. He leaned his hand and placed his finger on his forehead and I said to myself: Perhaps he has not liked it that I belong to the tribe of Ghifar. I attempted to catch hold of his hand but his friend who knew about him more than I dissuaded me f rom doing so. He then lifted his head and said: Since how long have you been here? I said: I have been here for the last thirty nights or days. He said: Who has been feeding you? I said: There has been no food for me but the water of Zamzam. I have grown so bulky that there appear wrinkles upon my stomach and I do not feel any hunger. He said: It is blessed (water) and it also serves as food. Thereupon Abu Bakr said: Allah's Messenger, let me serve as a host to him for tonight, and then Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) proceeded forth and so did Abu Bakr and I went along with them. Abu Bakr opened the door and then he brought for us the raisins of Ta'if and that was the first food which I ate there. Then I stayed as long as I had to stay. I then came to Allah's Messenaer ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and he said: I have been shown the land abound- ing in trees and I think it cannot be but that of Yathrib (that is the old name of Medina). You are a preacher to your people on my behalf. I hope Allah would benefit them through you and He would reward you. I came to Unais and he said: What have you done? I said: I have done that I have embraced Islam and I have testified (to the prophethood of Allah's Messenger). He said: I have no aversion for your religion and I also embrace Islam and testify (to the prophethood of Muhammad). Then both of us came to our mother and she said: I have no aversion for your religion and I also embrace Islam and testify to the prophethood of Muhammad. We then loaded our camels and came to our tribe Ghifir and half of the tribe embraced Islam and their chief was Aimi' b. Rahada Ghifirl and he was their leader and hall of the tribe said: We will embrace Islam when Allah's Messenger (may p,. ace be upon him) would come to Medina, and when Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) came to Medina the remaining half also embraced Islam. Then a tribe Aslam came to the Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said: Allah's Messenger, we also embrace Islam like our brothers who have embraced Islam. And they also embraced Islam. Thereupon Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Allah granted pardon to the tribe of Ghifar and Allah saved (from destruction) the tribe of Aslam.
More Hadiths From : The Book of the Merits of the Companions
Hadith 6169
Anas b. Malik reported that Abu Bakr Siddiq reported him thus: I saw the feet of the polytheists very close to us as we were in the cave. I said: Allah's Messenger, if one amongst them were to see at his feet he would have surely seen us. Thereupon he said: Abu Bakr, what can befall two who have Allah as the third One with them.
Read CompleteHadith 6170
Abu Sa'id reported that Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) sat on the pulpit and said: Allah gave a choice to His servant that he may opt the beauties of the world or that which is with Him and the servant chose that which was with Him. Thereupon Abu Bakr wept and he wept bitterly and said: Let our fathers and our mothers be taken as ransom for you. It was Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) who had been given the choice and Abu Bakr knew it better than us, and Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) is reported to have said: Behold, of all people the most generous toward me in regard to his companionship and his property was Abu Bakr and were I to choose anyone as my bosom friend, I would have chosen Abu Bakr as my dear friend, but (for him) I cherish Islamic brotherliness and love. There shall be left open no window in the mosque except Abu Bakr's window.
Read CompleteHadith 6171
This hadith has been narrated on the authority of Abu Sa'id Khudri through another chain of transmitters.
Read CompleteHadith 6172
Abdullah b. Mas'ud reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: If I were to choose a bosom friend I would have definitely chosen Abu Bakr as my bosom friend, but he is my brother and my companion and Allah, the Exalted and Gliorious. has taken your brother and companion (meaning Prophet himself) as a friend
Read CompleteHadith 6173
Abdullah reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: If I were to choose from my Umma anyone as my bosom friend, I would have chosen Abu Bakr.
Read Complete