The Book of Faith
Sahih Muslim Hadith # 480
Hadith on The Book of Faith of Sahih Bukhari 480 is about The Book Of The Book of Faith as written by Imam Muslim. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter The Book of Faith has 441 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَاتَّفَقَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ إِلَّا مَا يَزِيدُ أَحَدُهُمَا مِنَ الْحَرْفِ بَعْدَ الْحَرْفِ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً فَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاكَ؟ يَجْمَعُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَمَا لَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: أَلَا تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِيهِ؟ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ؟ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: ائْتُوا آدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى إِلَى [ص:185] مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى الْأَرْضِ، وَسَمَّاكَ اللهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ نَبِيُّ اللهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ فَضَّلَكَ اللهُ بِرِسَالَاتِهِ، وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، وَكَلِمَةٌ مِنْهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، وَرُوحٌ مِنْهُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ لَهُ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونِّي فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَغَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ، وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَأَنْطَلِقُ، فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللهُ عَلَيَّ وَيُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ لِأَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابُِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى ،
ابو حیان نے ابو زرعہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نےکہا : ایک دن رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی اٹھا کر آپ کو پیش کی گئی کیونکہ آپ آپ کو مرغوب تھی ، آپ نے اپنےدندان مبارک سے ایک بار اس میں سے تناول کیا اور فرمایا : ’’ میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا ۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلون اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا ۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ( اللہ کی ) نظر سب کے آر پار ( سب کو دیکھ رہی ) ہو گی ۔ سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جوان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا ۔ لوگ ایک دوسرے کہیں گے : کیا دیکھتے نہیں تم کس حالت میں ہو ؟ کیا دیکھتے نہیں تم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ کیا تم کوئی ا یسا شخص تلاش نہیں کرتے جو تمہاری سفارش کردے؟ یعنی تمہارے رب کے حضور ۔ چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے : آدم علیہ السلام کے پاس چلو تو وہ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے : اے آدم ! آپ سب انسانوں کے والد ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ آدم علیہ السلام جواب دیں گے : میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اسے سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت ( کےقریب جانے ) سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی ، مجھے اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے اپنی جان بچانی ہے ۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ ، نوح رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ۔ لوگ نوح رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے : اے نوح! آپ ( اہل ) زمین کی طرف سے بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں اور ا للہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے ۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے : آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا نہ آیندہ کبھی آئے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا ( خاص کی گئی ) تھی وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی ۔ ( آج تو ) میری اپنی جان ( پر بنی ) ہے ۔ مجھے اپنی جان ( کی فکر ) ہے ۔ تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ، چنانچہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے : آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل ( صرف اس کے دوست ) ہیں ، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو ابراہیم علیہ السلام ان سے کہیں گے : میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا اور اپنے ( تین ) جھوٹ یاد کریں گے ، ( اور کہیں ) مجھے اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے تو اپنی جان کی بچانی ہے ۔ کسی اورکے پاس جاؤ ، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے خدمت میں حاضر ہوں گے اورعرض کریں گے : اے موسیٰ!آپ اللہ کےرسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت عطا کی ، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام ان سے کہیں گے : میرا ب آج اس قدر غصے میں ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا ۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا ۔ میری جان ( کا کیا ہو گا ) میری جان ( کیسے بچے گی؟ ) عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پا س جاؤ ۔ لوگ عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے : اے عیسیٰ! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم رضی اللہ عنہ کی طرف القاء کیا اور اس کی روح ہیں ، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں ؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو عیسیٰ رضی اللہ عنہ انہیں جواب دیں گے : میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصےمیں نہ وہ اس سے پہلے آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا ، وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے ، ( کہیں گے مجھے ) اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے اپنی جان بچانی ہے ۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ، محمدﷺ کے پاس جاؤ ۔ لوگ میرے پاس ےئین گآ اور کہیں گے : اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ ( اگر ہوتے تو بھی ) معاف کر دیے ، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا ، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اوراپنی ایسی بہترین ثنا ( کے دروازے ) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے ، پھر ( اللہ ) فرمائےگا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیے ، مانگیے ، آپ کو ملے گا ، سفارش کیجیے ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا : اےمیرے رب ! میری امت ! میری امت ! توکہا جائے گا : اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں ان کو جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیجیے اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں ( بھی ) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا ( فاصلہ ) ہے جتنامکہ اور ( شہر بجر ) یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے ۔ ‘ ‘
Abu Huraira reported: Meat was one day brought to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and a foreleg was offered to him, a part which he liked. He sliced with his teeth a piece out of it and said: I shall be the leader of mankind on the Day of Resurrection. Do you know why? Allah would gather in one plain the earlier and the later (of the human race) on the Day of Resurrection. Then the voice of the proclaimer would be heard by all of them and the eyesight would penetrate through all of them and the sun would come near. People would then experience a degree of anguish, anxiety and agony which they shall not be able to bear and they shall not be able to stand. Some people would say to the others: Don you see in which trouble you are? Don't you see what (misfortune) has overtaken you? Why don't you find one who should intercede for you with your Lord? Some would say to the others: Go to Adam. And they would go to Adam and say: O Adam, thou art the father of mankind. Allah created thee by His own Hand and breathed in thee of His spirit and ordered the angels to prostrate before thee. Intercede for us with thy Lord Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Adam would say: Verily, my Lord is angry, to an extent to which He had never been angry before nor would He be angry afterward. Verily, He forbade me (to go near) that tree and I disobeyed Him. I am concerned with my own self. Go to someone else; go to Noah. They would come to Noah and would say: O Noah, thou art the first of the Messengers (sent) on the earth (after Adam), and Allah named thee as a Grateful Servant, intercede for us with thy Lord. Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? He would say: Verily, my Lord is angry today as He had never been angry before, and would never be angry afterwards. There had emanated a curse from me with which I cursed my people. I am concerned with only myself, I am concerned only with myself; you better go to Ibrahim (peace be upon him). They would go to Ibrahim and say: Thou art the apostle of Allah and His Friend amongst the inhabitants of the earth; intercede for us with thy Lord. Don't you see in which (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Ibrahim would say to them: Verily, my Lord is today angry as He had never been angry before and would never be angry afterwards. and (Ibrahim) would mention his lies (and then say): I am concerned only with myself, I am concerned only with myself. You better go to someone else: go to Moses. They would come to Moses (peace be upon him) and say: O Moses, thou art Allah's messenger, Allah blessed thee with His messengership and His conversation amongst people. Intercede for us with thy Lord. Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Moses (peace be upon him) would say to them: Verily. my Lord is angry as He had never been angry before and would never be angry afterwards. I, in fact, killed a person whom I had not been ordered to kill. I am concerned with myself, I am concerned with myself. You better go to Jesus (peace be upon him). They would come to Jesus and would say: O Jesus, thou art the messenger of Allah and thou conversed with people in the cradle, (thou art) His Word which I-Ie sent down upon Mary. and (thou art) the Spirit from Him; so intercede for us with thy Lord. Don't you see (the trouble) in which we are? Don't you see (the misfortune) that has overtaken us? Jesus (peace be upon him) would say: Verily, my Lord is angry today as He had never been angry before or would ever be angry afterwards. He mentioned no sin of his. (He simply said: ) I am concerned with myself, I am concerned with myself; you go to someone else: better go to Muhammad ( صلی اللہ علیہ وسلم ). They would come to me and say: O Mahammad, thou art the messenger of Allah and the last of the apostles. Allah has pardoned thee all thy previous and later sins. Intercede for us with thy Lord; don't you see in which (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? I shall then set off and come below the Throne and fall down prostrate before my Lord; then Allah would reveal to me and inspire me with some of His Praises and Glorifications which He had not revealed to anyone before me. He would then say: Muhammad, raise thy head; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted I would then raise my head and say: O my Lord, my people, my people. It would be said: O Muhammad, bring in by the right gate of Paradise those of your people who would have no account to render. They would share with the people some other door besides this door. The Prophet then said: By Him in Whose Hand is the life of Muhammad, verify the distance between two door leaves of the Paradise is as great as between Mecca and Hajar, or as between Mecca and Busra.
More Hadiths From : The Book of Faith
Hadith 94
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur that when Ma'bad discussed the problem pertaining to Divine Decree, we refuted that. He (the narrator) said: I and Humaid b. Abdur-Rahman Himyari argued. And they carried on the conversation about the purport of the hadith related by Kahmas and its chain of transmission too, and there is some variation of words.
Read CompleteHadith 95
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur and Humaid b. 'Abdur-Rahman that they said: We met Abdullah b. 'Umar and we discussed about the Divine Decree, and what they talked about it and he narrated the hadith that has been transmitted by 'Umar (may Allah be pleased with him) from the Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ). There is a slight variation in that.
Read CompleteHadith 97
Abu Huraira reported: One day the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) appeared before the public that a man came to him and said: Prophet of Allah, (tell me) what is Iman. Upon this he (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Messengers and that you affirm your faith in the Resurrection hereafter. He (again) said: Messenger of Allah, (tell me) what does al-Islam signify. He (the Holy Prophet) replied: Al-Islam signifies that you worship Allah and do not associate anything with Him and you establish obligatory prayer and you pay the obligatory poor-rate (Zakat) and you observe the fast of Ramadan. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, what does al-Ihsan imply? He (the Holy Prophet) replied: That you worship Allah as if you are seeing Him, and in case you fail to see Him, then observe prayer (with this idea in your mind) that (at least) He is seeing you. He (the inquirer ) again said: Messenger of Allah, when would there be the hour (of Doom)? He (the Holy Prophet) replied: The one who is asked about it is no better informed than the inquirer. I, however, narrate some of its signs (and these are): when the slave-girl will give birth to he master, when the naked, barefooted would become the chiefs of the people - these are some of the signs of (Doom). (Moreover) when the shepherds of the black (camels) would exult themselves in buildings, this is one of the signs of (Doom). (Doom) is one of the five (happenings wrapped in the unseen) which no one knows but Allah. Then he (the Messenger of Allah) recited (the verse): Verily Allah! with Him alone is the knowledge of the hour and He it is Who sends (down the rain) and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn tomorrow, and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Huraira) said: Then the person turned back and went away. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Bring that man back to me. They (the Companions of the Prophet present there) went to bring him back, but they saw nothing there. Upon this the Messenger of Allah remarked: he was Gabriel, who came to teach the people their religion
Read CompleteHadith 98
This hadith is narrated to us on the authority of Muhammad b. 'Abdullah b. Numair, on the authority of Muhammad b. Bishr, on the authority of Abd Hayyan al-Taymi with the exception that in this narration (instead of the words (Iza Waladat al'amah rabbaha), the words are (Iza Waladat al'amah Ba'laha), i, e, when slave-girl gives birth to her master.
Read Complete