info@themuslim360.com +92 51 4862317

The Book of Faith

Sahih Muslim Hadith # 479

Hadith on The Book of Faith of Sahih Bukhari 479 is about The Book Of The Book of Faith as written by Imam Muslim. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter The Book of Faith has 441 as total Hadith on this topic.

Hadith Book

Chapters

Hadith

حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، ح، وَحَدَّثَنَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: انْطَلَقْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَتَشَفَّعْنَا بِثَابِتٍ فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَ لَنَا ثَابِتٌ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَأَجْلَسَ ثَابِتًا مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ: لَهُ يَا أَبَا حَمْزَةَ، إِنَّ إِخْوَانَكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يَسْأَلُونَكَ أَنْ تُحَدِّثَهُمْ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ لَهُ: اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللهِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللهِ، فَيُؤْتَى مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ [ص:183]، فَإِنَّهُ رُوحُ اللهِ وَكَلِمَتُهُ، فَيُؤتَى عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُوتَى، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ الْآنَ، يُلْهِمُنِيهِ اللهُ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ، أَوْ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ، هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ، قُلْنَا: لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ، فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ، قَالَ: هِيَهِ، فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هِيَهِ قُلْنَا: مَا زَادَنَا، قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ، وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ، أَوْ كَرِهَ أَنْ يُحَدِّثَكُمْ، فَتَتَّكِلُوا، قُلْنَا لَهُ: حَدِّثْنَا، فَضَحِكَ وَقَالَ: {خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ} [الأنبياء: 37]، مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ لَكَ - أَوْ قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ - وَلَكِنْ وَعِزَّتِي وَكِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي وَجِبْرِيَائِي، لَأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، ، قَالَ: فَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ أَنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أُرَاهُ قَالَ: قَبْلَ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمِئِذٍ جَمِيعٌ

  معبد بن ہلال عنزی نے کہا : ہم لوگ انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس گئے اور ثابت ( البنانی ) کو اپنا سفارشی بنایا ( ان کے ذریعے سے ملاقات کی اجازت حاصل کی ۔ ) ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے ۔ ثابت نے ہمارے لیے ( اندر آنے کی ) اجازت لی ۔ ہم اندر ان کے سامنے حاضر ہوئے ۔ انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھالیا ۔ ثابت نے ان سے کہا : اے ابوحمزہ! بصرہ کےباشندوں میں سے آپ کو ( یہ ) بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ انہیں شفاعت کی حدیث سنائیں ۔ حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ہمیں حضرت محمدﷺ نے بتایا : ’’ جب قیامت کا دن ہو گا تولوگ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے ۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے : اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے ( کہ وہ میدان حشر کے مصائب اور جاں گسل انتظار سے نجات پائیں ۔ ) وہ کہیں گے : میں اس کے لیے نہیں ہوں ۔ لیکن تم ابراہیم علیہ السلام کا دامن تھام لو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ( خالص دوست ) ہیں ۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے ۔ وہ جواب دیں گے : میں اس کے لیےنہیں ۔ لیکن تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں ( جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا ) تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضری ہو گی ۔ وہ فرمائیں گے : میں اس کے لیے نہیں ۔ لیکن تم عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کےساتھ لگ جاؤ کیونکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ۔ تو عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس آمد ہو گی ، وہ فرمائیں گے : میں اس کے لیے نہیں ۔ لیکن تم محمدﷺ کے پاس پہنچ جاؤ ، تو ( ان کی ) آمد میرے پاس ہو گی ۔ میں جواب دوں گا : اس ( کام ) کے لیے میں ہوں ۔ میں چل پڑوں گا اور اپنے رب کے سامنے حاضری کی اجازت چاہوں گا ، مجھے اجازت عطا کی جائے گی ، اس میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا اور تعریف کی ایسی باتوں کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جس پر میں اب میں قادر نہیں ہوں ، اللہ تعالیٰ ہی یہ ( حمد ) میرے دل میں ڈالے گا ، پھر میں اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا ، پھر مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سراٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امت ! ، میری امت! تو مجھ سے کہاجائے گا : جائیں جس کےدل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لیں ، میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ، پھر میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور لوٹ آؤں گا اور حمد کے انہی اسلوبوں سے اس کی تعریف بیان کروں گا ، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا تو مجھے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امت ! میری امت! مجھے کہا جائے گا : جائیں ، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ، اسے نکال لیں ۔ تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ، پھراپنے رب کے حضور لوٹ آؤں گا اور اس جیسی تعریف سے اس کی حمد کروں گا ، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا ۔ تو مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد ! ا پنا سر اٹھائیں ، کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت ! میری امت !تو مجھ سے کہا جائے گا : جائیں ، جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم ، اس سے ( بھی ) کم ، اس سے ( اور بھی ) کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لیں تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ۔ ‘ ‘ یہ حضرت انس کی روایت ہے جو انہوں نے ہمیں بیان کی ۔ ( معبدی بن ہلال عنزی نے ) کہا : چنانچہ ہم ان کے ہاں سے نکل آئے ، جب ہم چٹیل میدان کے بالائی حصے پر پہنچے تو ہم نے کہا : ( کیا ہی اچھاہو ) اگر ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انہیں سلام کرتے جائیں ۔ وہ ( حجاج بن یوسف کے ڈر سے ) ابو خلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے ۔ انہوں نےکہا : جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں سلام کیا ۔ ہم نے کہا : جناب ابوسعید! ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ ( حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی کنیت ہے ) کے پاس سے آرہے ہیں ۔ ہم نے کبھی اس جیسی حدیث نہیں سنی جو انہوں شفاعت کے بارے میں ہمیں سنائی ۔ حسن بصری نے کہا : لائیں سنائیں ۔ ہم نے انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کہا : آگے سنائیں ۔ ہم نے کہا : انہوں نےہمیں اس سے زیادہ نہیں سنایا ۔ انہوں ( حسن بصری ) نے کہا : ہمیں انہوں نے یہ حدیث بیس برس پہلے سنائی تھی ، اس وقت وہ پوری قوتوں کے مالک تھے ۔ انہوں نے کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے ، معلوم نہیں ، شیخ بھول گئے یا انہوں نے تمہیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا کہ کہیں تم ( اس میں بیان کی ہوئی بات ہی پر ) بھروسا نہ کر لو ۔ ہم نےعرض کی : آپ ہمیں سنا دیں تو وہ ہنس پڑے اور کہا : انسان جلدباز پیدا کیاگیا ہے ، میں نے تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ اس کے سوا ( اور کسی وجہ سے ) نہیں کیا تھا مگر اس لیے کہ میں تمہیں یہ حدیث سنانا چاہتا تھا ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’پھر میں چوتھی بار اپنے رب کی طرف لوٹوں گا ، پھر انہی تعریفوں سے اس کی حمد بیان کروں گا ، پھر اس حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیاجائے گااور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! مجھے ان کےبارے میں ( بھی ) اجازت دیجیے جنہوں نے ( صرف ) لا الہ الا اللہ کہا ۔ اللہ فرمائے گا : یہ آپ کے لیے نہیں لیکن میری عزت کی قسم ، میری کبریائی ، میری عظمت اور میری بڑائی کی قسم ! میں ان کو ( بھی ) جہنم سے نکال لوں گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ۔ ‘ ‘ معبد کا بیان ہے : میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ روایت سنی ۔ میرا خیال ہے ، انہوں نے کہا : بیس سال پہلے ، اور اس وقت ان کی صلاحتیں بھر پور تھیں ۔

Ma'bad b. Hilal al 'Anazi reported: We went to Anas b. Malik through Thabit and reached there (his house) while he was offering the forenoon prayer. Thabit sought permission for us and we entered, and he seated Thabit with him on his bedstead. He (Thabit) said to him (Anas b. Malik): O Abu Hamza (kunya of Anas b. Malik), your brothers from among the inhabitants of Basra ask you to narrate to them the hadith of intercession. He said: Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) narrated to us: When it would be the Day of Resurrection, some of the people would rush to one another in bewilderment. They would come to Adam and say: Intercede (with your Lord) for your progeny. He would say: I am not fit to do this, but go to Ibrabim (peace be upon him) for he is the Friend of Allah. They would come to Ibrahim, but he would say: I am not fit to do this, but go to Moses, for he is Allah's Interlocutor. They would come to Moses, but he would say: I am not fit to do this, but you should go to Jesus, for he is the Spirit of Allah and His word. They would come to Jesus, and he would say, I am not fit to do this; you better go to Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). They would come to me, and I would say: I am in a position to do that, I would go and ask the permission of my Lord and it would be granted to me. I would then stand before Him and would extol Him with praises which I am not able to do now, but with which Allah would inspire me, then I would fall in prostration and it would be said to me: O Muhammad, raise thy head, and say and it would be listened to; ask and it would be granted, intercede and it would be accepted. I shall say: My Lord, my people, my people It would be said: Go, and bring forth from it (Hell) him who has in his heart faith equal to the weight of a wheat grain or a barley seed. I would go and do that; then I would return to my Lord and extol Him with those praises (taught to me by Allah), then I would fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raise your head, and say and it would be heard; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted. So I would say: My people. my people. It would be said to me: Go and take out from it (Hell) him who has in his heart faith equal to the weight of a mustard seed. I would go and do that. I would again return to my Lord and extol Him with those praises. I would then fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raisevour head: say, and you would be listened to; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted. I would say: My Lord, my people, my people. It would be said to me: Go, and bring out of the Fire him who has in his heart as much faith as the smallest, smallest, smallest grain of mustard seed. I would go and do that. This is the hadith which Anas narrated to us. We went out of his (house) and when we reached the upper part of Jabban (graveyard) we said: Would that we meet Hasan and salute him and he was hiding in the house of Abu Khalifa. He (Ma'bad b. Hilal, the narrator) said: We went to him and greeted him and we said: O Abu Sa'id, we come from your brother Abu Hamza (kunya of Anas), and we have never heard a hadith like this relating to intercession, which he has narrated to us. He said: Narrate it, we narrated the hadith. He said: Narrate it (still further). We said: He did not (narrate it) before us more than this. He said: He (Anas) had narrated it to us twenty years back, when he was strong and healthy. He has in fact missed something. I cannot make out whether the old man has forgotten or he has (intentionally) avoided to narrate it to you lest you should rely (absolutely) upon it (and abandon doing good deeds). We said to him: Relate that to us, and he laughed and said: There is haste in the nature of man. I did not make mention of it to you but for the fact that I wanted to narrate that to you (and added that the Prophet said): I would then return to my Lord for the fourth time and extol Him with these praises. I would then fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raise your head: say and it will be listened to; ask and it will be granted; intercede and intercession would be accepted. I would say: O my Lord, permit me regarding him who professed: There is no god but Allah. He (the Lord) would say: That is not for thee or that is not what lies with thee, but by My Honour, Glory, Greatness and Might, I would certainly take him out who professed it: There is no god but Allah. He (the narrator, Ma'bad) said: I hear testimony to the fact that the hadith transmitted to us-by Hasan was heard by him from Anas b. Malik and I can see that he reported it twenty years back, when he was hale and hearty.

Share This:
More Hadiths From : The Book of Faith
Hadith 94

It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur that when Ma'bad discussed the problem pertaining to Divine Decree, we refuted that. He (the narrator) said: I and Humaid b. Abdur-Rahman Himyari argued. And they carried on the conversation about the purport of the hadith related by Kahmas and its chain of transmission too, and there is some variation of words.

Read Complete
Hadith 95

It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur and Humaid b. 'Abdur-Rahman that they said: We met Abdullah b. 'Umar and we discussed about the Divine Decree, and what they talked about it and he narrated the hadith that has been transmitted by 'Umar (may Allah be pleased with him) from the Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). There is a slight variation in that.

Read Complete
Hadith 96

The same hadith is mentioned through a different chain.

Read Complete
Hadith 97

Abu Huraira reported: One day the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) appeared before the public that a man came to him and said: Prophet of Allah, (tell me) what is Iman. Upon this he (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Messengers and that you affirm your faith in the Resurrection hereafter. He (again) said: Messenger of Allah, (tell me) what does al-Islam signify. He (the Holy Prophet) replied: Al-Islam signifies that you worship Allah and do not associate anything with Him and you establish obligatory prayer and you pay the obligatory poor-rate (Zakat) and you observe the fast of Ramadan. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, what does al-Ihsan imply? He (the Holy Prophet) replied: That you worship Allah as if you are seeing Him, and in case you fail to see Him, then observe prayer (with this idea in your mind) that (at least) He is seeing you. He (the inquirer ) again said: Messenger of Allah, when would there be the hour (of Doom)? He (the Holy Prophet) replied: The one who is asked about it is no better informed than the inquirer. I, however, narrate some of its signs (and these are): when the slave-girl will give birth to he master, when the naked, barefooted would become the chiefs of the people - these are some of the signs of (Doom). (Moreover) when the shepherds of the black (camels) would exult themselves in buildings, this is one of the signs of (Doom). (Doom) is one of the five (happenings wrapped in the unseen) which no one knows but Allah. Then he (the Messenger of Allah) recited (the verse): Verily Allah! with Him alone is the knowledge of the hour and He it is Who sends (down the rain) and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn tomorrow, and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Huraira) said: Then the person turned back and went away. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Bring that man back to me. They (the Companions of the Prophet present there) went to bring him back, but they saw nothing there. Upon this the Messenger of Allah remarked: he was Gabriel, who came to teach the people their religion

Read Complete
Hadith 98

This hadith is narrated to us on the authority of Muhammad b. 'Abdullah b. Numair, on the authority of Muhammad b. Bishr, on the authority of Abd Hayyan al-Taymi with the exception that in this narration (instead of the words (Iza Waladat al'amah rabbaha), the words are (Iza Waladat al'amah Ba'laha), i, e, when slave-girl gives birth to her master.

Read Complete