The Book of Faith
Sahih Muslim Hadith # 463
Hadith on The Book of Faith of Sahih Bukhari 463 is about The Book Of The Book of Faith as written by Imam Muslim. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter The Book of Faith has 441 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ، فَهْوَ يَمْشِي مَرَّةً، وَيَكْبُو مَرَّةً، وَتَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً، فَإِذَا مَا جَاوَزَهَا الْتَفَتَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ، لَقَدْ أَعْطَانِي اللهُ شَيْئًا مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَلِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ، لَعَلِّي إِنَّ أَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: لَا، يَا رَبِّ، وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَى، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، وَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: لَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا، فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابُِ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَيَيْنِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا، قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهَا، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْخِلْنِيهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ مَا يَصْرِينِي مِنْكَ؟ أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا؟ قَالَ: يَا رَبِّ، أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ ، فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّ أَضْحَكُ فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ، قَالَ: هَكَذَا ضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: مِنْ ضَحِكِ رَبِّ الْعَالَمِينَ حِينَ قَالَ: أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ مِنْكَ، وَلَكِنِّي عَلَى مَا أَشَاءُ قَادِرٌ
انس رضی اللہ عنہ نےحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جنت میں سب سے آخر میں وہ آدمی داخل ہو گا جو کبھی چلےگا ، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی آگ سے جھلسا دے گی ۔ جب و ہ آگ سے نکل آ ئے گا توپلٹ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا : بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی ۔ اللہ نے مجھے ایسی چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی ۔ اسے بلندی پر ایک درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں دھوپ سے نجات حاصل کروں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں ۔ اس پر اللہ عز وجل فرمائے گا : اے ابن آدم ! ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں یہ درخت دےدوں تو تم مجھ سے اس کے سوا کچھ اور مانگو ۔ وہ کہے گا : نہیں ، اے میرے رب ! اور اللہ کے ساتھ عہد کرے گا کہ وہ اس سے اور کچھ نہ مانگے گا ۔ اس کا پروردگار اس کے عذر قبول کر لے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گاجس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا ۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس ( درخت ) کے قریب کر دے گا اور وہ اس کے سائے میں دھوپ سے محفوظ ہو جائے گا اور اس کاپانی پیے گا ، پھر اسے اوپر ایک اور درخت دکھایا جائے گاجو پہلے درخت سےزیادہ خوبصورت ہو گا تووہ کہے گا : اےمیرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے پانی سے سیراب ہوں اور اس کے سائے میں آرام کروں ، میں تجھ سے اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائےگا : اے آدم کے بیٹے ! کیا تم نے مجھ سےوعدہ نہ کیا تھا کہ تم مجھ سے کچھ اورنہیں مانگو گے؟ اور فرمائے گا : مجھے لگتا ہے اگر میں تمہیں اس کے قریب کردوں تو تم مجھ سے کچھ اور بھی مانگو گے ۔ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگے گا ، اس کا رب تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا ، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس کے سامنے اس سے صبر نہیں ہو سکتا ۔ اس پر اللہ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا ۔ وہ اس کے سائے کے نیچے آ جائے گا اور اس کےپانی سے پیاس بجھائے گا ۔ اور پھر ایک درخت جنت کے دروازے کے پاس دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہو گا تو وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے سے فائدہ اٹھاؤں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں ، میں تم سے اور کچھ نہیں مانگوں گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے! کیا تم نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ او رکچھ نہیں مانگو گے؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں میرے رب! ( وعدہ کیا تھا ) بس یہی ، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا ۔ اس کا رب اس کاعذر قبول کر لے گاکیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا ۔ تو وہ اس شخص کے اس ( درخت ) کے قریب کر دے گاتو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب!مجھے اس میں داخل کر دے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! وہ کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے؟ کیا تم اس سے راضی ہو جاؤ گے کہ میں تمہیں ساری دنیا اور اس کے برابر اوردے دوں ؟وہ کہے گا : اے میرے رب! کیا تومیری ہنسی اڑاتا ہے جبکہ تو سارے جہانوں کا رب ہے ۔ ‘ ‘ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہا : کیا تم مجھ سے یہ نہیں پوچھوگے کہ میں کیوں ہنسا؟ سامعین نے پوچھا : آپ کیوں ہنسے؟ کہا : اسی طرح رسول اللہ ﷺ ہنسے تھے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا تھا : اے اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’رب العالمین کے ہنس پڑے پر ، جب اس نے کہا کہ تو سارے جہانوں کارب ہے ، میری ہنسی اڑاتا ہے ؟ اللہ فرمائے گا : میں تیری ہنسی نہیں اڑاتا بلکہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ ‘ ‘
Ibn Mas'ud reported: Verily the Messenger of Allah said: The last to enter Paradise would be a man who would walk once and stumble once and be burnt by the Fire once. Then when he gets beyond it, he will turn to it and say: Blessed is He Who has saved me from thee. Allah has given me something He has not given to any one of those in earlier or later times. Then a tree would be raised up for him and he will say: O my Lord I bring me near this tree so that I may take shelter in its shade and drink of its water. Allah, the Exalted and Great, would say: O son of Adam, if I grant you this, you will ask Me for something else. He would say: No. my Lord. And he would promise Him that he would not ask for anything else. His Lord would excuse him because He sees what he cannot help desiring; so He would bring him near it, and he would take shelter in its shade and drink of its water. Afterwards a tree more beautiful than the first would be raised up before him and he would say: O my Lord! bring me near this tree in order that I may drink of its water and take shelter in its shade and I shall not ask Thee for anything else. He (Allah) would say: O son of Adam, if I bring you near it you may ask me for something else. He would promise Him that he would not ask for anything else. His Lord will excuse him because He would see something he cannot help desiring. So He would bring him near it and he would enjoy its shade and drink its water. Then a tree would be raised up for him at the gate of the Paradise, more beautiful than the first two. He would say: O my Lord! bring me near this (tree) so that I may enjoy its shade and drink from its water. I shall not ask Thee for anything else. He (Allah) would say: O son of Adam! did you not promise Me that you would not ask Me anything else? He would say: Yes, my Lord, but I shall not ask Thee for anything else. His Lord would excuse him for He sees something the temptation of which he could not resist. He (Allah) would bring him near to it, and when He would bring him near it he would hear the voices of the inhabitants of the Paradise. He would say: O my Lord! admit me to it. He (Allah) would say: O son of Adam, what will bring an end to your requests to Me? Will it please you if I give you the whole world and a like one along with it? He will say: O my Lord! art Thou mocking at me, though Thou art the Lord of the worlds? Ibn Mas'ud laughed and asked (the hearers): Why don't you ask me what I am laughing at. They (then) said: Why do you laugh? He said: It is in this way that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) laughed. They (the companions of the Holy Prophet) asked: Why do you laugh. Messenger of Allah? He said: On account of the laugh of the Lord of the universe, when he ldesirer of Paradise) sai Thou mocking at me though Thou art the Lord of the worlds? He would say: I am not mocking at you, but I have power to do whatever I will.
More Hadiths From : The Book of Faith
Hadith 94
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur that when Ma'bad discussed the problem pertaining to Divine Decree, we refuted that. He (the narrator) said: I and Humaid b. Abdur-Rahman Himyari argued. And they carried on the conversation about the purport of the hadith related by Kahmas and its chain of transmission too, and there is some variation of words.
Read CompleteHadith 95
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur and Humaid b. 'Abdur-Rahman that they said: We met Abdullah b. 'Umar and we discussed about the Divine Decree, and what they talked about it and he narrated the hadith that has been transmitted by 'Umar (may Allah be pleased with him) from the Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ). There is a slight variation in that.
Read CompleteHadith 97
Abu Huraira reported: One day the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) appeared before the public that a man came to him and said: Prophet of Allah, (tell me) what is Iman. Upon this he (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Messengers and that you affirm your faith in the Resurrection hereafter. He (again) said: Messenger of Allah, (tell me) what does al-Islam signify. He (the Holy Prophet) replied: Al-Islam signifies that you worship Allah and do not associate anything with Him and you establish obligatory prayer and you pay the obligatory poor-rate (Zakat) and you observe the fast of Ramadan. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, what does al-Ihsan imply? He (the Holy Prophet) replied: That you worship Allah as if you are seeing Him, and in case you fail to see Him, then observe prayer (with this idea in your mind) that (at least) He is seeing you. He (the inquirer ) again said: Messenger of Allah, when would there be the hour (of Doom)? He (the Holy Prophet) replied: The one who is asked about it is no better informed than the inquirer. I, however, narrate some of its signs (and these are): when the slave-girl will give birth to he master, when the naked, barefooted would become the chiefs of the people - these are some of the signs of (Doom). (Moreover) when the shepherds of the black (camels) would exult themselves in buildings, this is one of the signs of (Doom). (Doom) is one of the five (happenings wrapped in the unseen) which no one knows but Allah. Then he (the Messenger of Allah) recited (the verse): Verily Allah! with Him alone is the knowledge of the hour and He it is Who sends (down the rain) and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn tomorrow, and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Huraira) said: Then the person turned back and went away. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Bring that man back to me. They (the Companions of the Prophet present there) went to bring him back, but they saw nothing there. Upon this the Messenger of Allah remarked: he was Gabriel, who came to teach the people their religion
Read CompleteHadith 98
This hadith is narrated to us on the authority of Muhammad b. 'Abdullah b. Numair, on the authority of Muhammad b. Bishr, on the authority of Abd Hayyan al-Taymi with the exception that in this narration (instead of the words (Iza Waladat al'amah rabbaha), the words are (Iza Waladat al'amah Ba'laha), i, e, when slave-girl gives birth to her master.
Read Complete