info@themuslim360.com +92 51 4862317

The Book Of Jihad And Expeditions

Sahih Muslim Hadith # 4607

Hadith on The Book Of Jihad And Expeditions of Sahih Bukhari 4607 is about The Book Of The Book Of Jihad And Expeditions as written by Imam Muslim. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter The Book Of Jihad And Expeditions has 181 as total Hadith on this topic.

Hadith Book

Chapters

Hadith

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيهِ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّامِ [ص:1394] إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ، قَالَ: وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ، فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ، فَقَالَ هِرَقْلُ: هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ، فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا، فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي، ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ لَهُ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللهِ، لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ لَكَذَبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَمَنْ يَتَّبِعُهُ؟ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لَا، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا [ص:1395]، قَالَ: فَوَاللهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ، فَقُلْتَ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَغْدِرُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ: لَو قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: بِمَ يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ، قَالَ: إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَمْ أَكُنْ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ [ص:1396]، قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ، وَ {يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابا مِنْ دُونِ اللهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ}» فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَكَثُرَ اللَّغْطُ، وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، قَالَ: فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ

  معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی ، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں روبرو بتایا ، کہا : ( معاہدہ صلح کی ) اس مدت کے دوران میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھی ، میں سفر پر گیا ۔ کہا : اس اثنا میں ، جب میں شام میں تھا ، ہر قل ، یعنی شامِ روم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک خط لایا گیا ۔ کہا : اسے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ لے کر آئے اور حاکم بُصریٰ کے حوالے کیا ، بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل تک پہنچا دیا تو ہرقل نے کہا : کیا اس شخص کی قوم میں سے ، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ، کوئی شخص یہاں موجود ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ کہا : تو قریش کے کچھ افراد سمیت مجھے بلایا گیا ، ہم ہرقل کے پاس آئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا : تم میں سے نسب میں اس آدمی کے سب سے زیادہ قریب کون ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان نے کہا : میں نے جواب دیا : میں ہوں ۔ تو ان لوگوں نے مجھے ان کے سامنے بٹھا دیا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا ، پھر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا اور اس سے کہا : ان سے کہہ دو : میں اس آدمی سے اس شخص کے بارے میں پوچھنے لگا ہوں جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ، اگر یہ میرے سامنے جھوٹ بولے تو تم لوگ اس کی تکذیب کر دینا ۔ کہا : ابوسفیان نے کہا : اللہ کی قسم! اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی تو میں جھوٹ بولتا ۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا : اس سے پوچھو : تم میں اس کا حسب ( خاندان ) کیسا ہے؟ کہا : میں نے جواب دیا : وہ ہم میں حسب والا ہے ۔ اس نے پوچھا : کیا اس کے آباء و اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا؟ میں نے جواب دیا : نہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا اس نے ( نبوت کے حوالے سے ) کو کہا ، اس کے کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے؟ میں نے جواب دیا : نہیں ۔ اس نے پوچھا : اس کے پیروکار کون لوگ ہیں؟ بڑے لوگ ہیں یا کمزور لوگ ہیں؟ میں نے جواب دیا : بلکہ کمزور لوگ ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ کہا : میں نے جواب دیا : نہیں ، بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا ان میں سے کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اسے ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوتا ہے؟ میں نے جواب دیا : نہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا تم نے اس سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے جواب دیا : ہاں ۔ اس نے پوچھا : تو تمہاری اس سے جنگ کیسی رہی؟ میں نے جواب دیا : ہمارے اور اس کے درمیان جنگ کنویں کے ڈول کی طرح ہے ، وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے اور ہم اسے نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا وہ بدعہدی کرتا ہے؟ میں نے جواب دیا : نہیں ، ہم اس کی جانب سے ( کی گئی ) صلح کے زمانے میں ہیں ، ہمیں معلوم نہیں ، وہ اس میں کیا کرے گا ۔ کہا : اللہ کی قسم! اس ایک کلمے کے سوا اس میں کوئی اور بات ملانا میرے لیے ممکن نہ ہوا ۔ اس نے پوچھا : کیا اس سے پہلے کسی نے وہ بات کہی ہے؟ میں نے جواب دیا : نہیں ۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہا : ان سے کہو : میں نے تم سے اس کے حسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ تم میں ( اونچے ) حسب والا ہے ۔ رسول اسی طرح ہوتے ہیں ، اپنی قوم کے اعلیٰ خاندانوں میں بھیجے جاتے ہیں ۔ اور میں نے پوچھا : کیا اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے دعویٰ کیا : نہیں ، میں نے ( دل میں ) کہا : اگر اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا : وہ آدمی اپنے آباء کی بادشاہت حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے اس کے پیروکاروں کے بارے میں پوچھا : وہ کمزور لوگ ہیں یا اشراف ہیں؟ تو تم نے کہا : بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں ، رسولوں کے پیروکار وہی لوگ ہوتے ہیں ۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ جو وہ کہتا ہے اس سے پہلے تم اس پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے تو تم نے کہا : نہیں ، اس طرح میں جان گیا کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے مگر اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس سے ناراض ہو کر اس کے دین سے نکلا ہے؟ تو تم نے کہا : نہیں ، ایمان جب دلوں میں رچ بس جاتا ہے تو اسی طرح ہوتا ہے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں ، ایمان ایسا ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جاتا ہے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا تم نے اس سے لڑائی کی؟ تو تم نے کہا کہ ( ہاں ) تم نے اس سے لڑائی کی ہے اور تمہارے اور اس کے درمیان جنگ ڈول کی طرح ہے ، وہ تم میں سے لوگوں کو قتل کرتا ہے اور تم اس کے لوگوں میں سے قتل کرتے ہو ، رسول اسی طرح ہوتے ہیں ، انہیں آزمایا جاتا ہے ، پھر انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے؟ تو تم نے کہا کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتا اور رسول اسی طرح ہوتے ہیں ، وہ بدعہدی نہیں کرتے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ( کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟ ) تو تم نے کہا : نہیں ، میں نے ( دل میں ) کہا : اگر کسی نے اس سے پہلے یہ بات کہی ہوتی تو میں کہتا : یہ آدمی وہی بات کہنا چاہتا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے ۔ کہا : پھر اس نے پوچھا : وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ میں نے جواب دیا : وہ ہمیں نماز ، زکاۃ ، صلہ رحمی اور پاکبازی کا حکم دیتا ہے ۔ اس نے کہا : اگر تم جو اس کے بارے میں کہتے ہو ، سچ ہے ، تو بلاشبہ وہ نبی ہے اور میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور ہونے والا ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہو گا ، اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ میں ان تک پہنچ سکتا ہوں تو میں ان سے ملنے کو محبوب رکھوں ۔ اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں دھوتا اور ان کی حکومت اس زمین تک پہنچ کر رہے گی جو میرے قدموں کے نیچے ہے ۔ کہا : پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا تو اس میں ( لکھا ) تھا : اللہ کے نام سے جو بہت زیادہ رحم کرنے والا ، ہمیشہ مہربانی کرنے والا ہے ، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ ، روم ہرقل کے نام ، اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا ، اس کے بعد ، میں تمہیں اسلام کے بلاوے کے ساتھ دعوت دیتا ہوں ، اسلام قبول کر لو ، سلامتی پا لو گے ، اسلام قبول کر لو ، اللہ تمہیں دو بار اجر دے گا اور اگر تم نے منہ موڑ لیا تو کسانوں ( عام لوگوں ) کا گناہ ( جو تمہارے پیچھے چلتے ہیں ) تم پر ہو گا ۔ اور "" اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک جیسی ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں ، ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے ، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو کہہ دیں ، ( تم ) گواہ رہو کہ ہم فرماں بردار ( اسلام قبول کرنے والے ) ہیں ۔ "" جب وہ خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے پاس آوازیں بلند ہونے لگیں اور شور بڑھ گیا ، اس نے ہمارے بارے میں حکم دیا تو ہمیں باہر بھیج دیا گیا ۔ کہا : جب ہم باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا : ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو بہت بڑا ہو گیا ہے ، اس سے تو بنو اصفر ( اہل روم ) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے ۔ کہا : اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں مجھے ہمیشہ یقین رہا کہ وہ غالب آئیں گے ، یہاں تک کہ اللہ نے مجھ میں اوپر سے ( غالب کر کے ) اسلام داخل کر دیا

It has been narrated on the authority of Ibn Abbas who learnt the tradition personally from Abu Safyan. The latter said: I went out (on a mercantile venture) during the period (of truce) between me and the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). While I was in Syria, the letter of the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) was handed over to Hiraql (Ceasar), the Emperor of Rome (who was on a visit to Jerusalem at that time). The letter was brought by Dihya Kalbi who delivered it to the governor of Busra The governor passed it on to Hiraql, (On receiving the letter), he said: Is there anyone from the people of this man who thinks that he is a prophet. People said: Yes. So, I was called along with a few others from the Quraish. We were admitted to Hiraql and he seated usbefore him. He asked: Which of you has closer kinship with the man who thinks that he is a prophet? Abu Sufyan said: I. So they seated me in front of him and stated my companions behind me. Then, he called his interpreter and said to him: Tell them that I am going to ask this fellow (i. e. Abu Sufyan) about the man who thinks that he is a prophet. It he tells me a lie, then refute him. Abu Sufyan told (the narrator): By God, if there was not the fear that falsehood would be imputed to me I would have lied. (Then) Hiraqi said to his interpreter: Inquire from him about his ancestry, I said: He is of good ancestry among us. He asked: Has there been a king among his ancestors? I said: No. He asked: Did you accuse him of falsehood before he proclaimed his prophethood? I said: No. He asked: Who are his follower people of high status or low status? I said: (They are) of low status. He asked: Are they increasing in number or decreasing? I said. No. they are rather increasing. He asked: Does anyone give up his religion, being dissatisfied with it, after having embraced it? I said: No. He asked: Have you been at war with him? I said: Yes. He asked: How did you fare in that war? I said: The war between us and him has been wavering like a bucket, up at one turn and down at the other (i. e. the victory has been shared between us and him by turns). Sometimes he suffered loss at our hands and sometimes we suffered loss at his (hand). He asked: Has he (ever) violated his covenant? I said: No. but we have recently concluded a peace treaty with him for a petiod and we do not know what he is going to do about it. (Abu Sufyin said on oath that he could not interpolate in this dialogue anything from himself more than these words ) He asked: Did anyone make the proclamation (Of prophethood) before him? I said: No. He (now) said to his interpreter: Tell him, I asked him about his ancestry and he had replied that he had the best ancestry. This is the case with Prophets; they are the descendants of the noblest among their people (Addressing Abu Sufyan), he continued: I asked you if there had been a king among his ancestors. You said that there had been none. If there had been a king among his ancestors, I would have said that he was a man demanding his ancestral kingdom. I asked you about his followers whether they were people of high or low status, and you said that they were of rather low status. Such are the followers of the Prophets. I asked you whether you used to accuse him of falsehood before he proclaimed his prophethood, and you said that you did not. So I have understood that when he did not allow himself to tell a lie about the poeple, he would never go to the length of forging a falsehood about Allah. I asked you whether anyone renounced his religion being dissatisfied with it after he had embraced it, and you replied in the negative. Faith is like this when it enters the depth of the heart (it perpetuates them). I asked you whether his followers were increasing or decreasing. You said they were increasing. Faith is like this until it reaches its consummation. I asked you whether you had been at war with him, and you replied that you had been and that the victory between you and him had been shared by turns, sometimes he suffering loss at your hand and sometimes you suffering lost at his. This is how the Prophets are tried before the final victory its theirs. I asked you whether he (ever) violated his covenant, and you said that he did not. This is how the Prophets behave. They never violate (their covenants). I asked you whether anyone before him had proclaimed the same thing, and you replied in the negative. I said: If anyone had made the same proclamation before, I would have thought that he was a man following what had been proclaimed before. (Then) he asked: What does he enjoin upon you? I said: He exhorts us to offer Salat, to pay Zakat, to show due regard to kinship and to practise chastity. He said: It what you have told about him is true, he is certainly a Prophet. I knew that he was to appear but I did not think that he would be from among you. If I knew that I would be able to reach him. I would love to meet him; and it I had been with him. I would have washed his feet (out of reverence). His dominion would certainly extend to this place which is under my feet. Then he called for the letter of the Messenger of Allah (may pface be upon him) and read it. The letter ran as follows: In the name of Allah, Most Gracious and Most Merciful. From Muhammad, the Messenger of Allah, to Hiraql, the Emperor of the Romans. Peace be upon him who follows the guidance. After this, I extend to you the invitation to accept Islam. Embrace Islam and you will be safe. Accept Islam, God will give you double the reward. And if you turn away, upon you will be the sin of your subjects. O People of the Book, come to the word that is common between us that we should worship none other than Allah, should not ascribe any partner to Him and some of us should not take their fellows as Lords other than Allah. If they turn away, you should say that we testify to our being Muslims [iii. 64]. When he hid finished the reading of the letter, noise and confused clamour was raise around him, and he ordered us to leave. Accordingly, we left. (Addressing my companions) while we were coming out (of the place). I said: Ibn Abu Kabsha (referring sarcastically to the Holy Prophet) has come to wield a great power. Lo! (even) the king of the Romans is afraid of him. I continued to believe that the authority of the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) would triumph until God imbued me with (the spirit of) Islam.

Share This:
Hadith 4520

This hadith has been narrated on the authority of Ibn 'Aun and the name of Juwairiya bint al-Harith was mentioned beyond any doubt.

Read Complete
Hadith 4521

Same as Hadees 4522

Read Complete
Hadith 4522

It has been reported from Sulaiman b. Buraida through his father that when the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) appointed anyone as leader of an army or detachment he would especially exhort him to fear Allah and to be good to the Muslims who were with him. He would say: Fight in the name of Allah and in the way of Allah. Fight against those who disbelieve in Allah. Make a holy war, do not embezzle the spoils; do not break your pledge; and do not mutilate (the dead) bodies; do not kill the children. When you meet your enemies who are polytheists, invite them to three courses of action. If they respond to any one of these, you also accept it and withhold yourself from doing them any harm. Invite them to (accept) Islam; if they respond to you, accept it from them and desist from fighting against them. Then invite them to migrate from their lands to the land of the Muhajireen and inform them that, if they do so, they shall have all the privileges and obligations of the Muhajireen. If they refuse to migrate, tell them that they will have the status of Bedouin Muslims and will be subjected to the Commands of Allah like other Muslims, but they will not get any share from the spoils of war or Fai' except when they actually fight with the Muslims (against the disbelievers). If they refuse to accept Islam, demand from them the Jizya. If they agree to pay, accept it from them and hold off your hands. If they refuse to pay the tax, seek Allah's help and fight them. When you lay siege to a fort and the besieged appeal to you for protection in the name of Allah and His Prophet, do not accord to them the guarantee of Allah and His Prophet, but accord to them your own guarantee and the guarantee of your companions for it is a lesser sin that the security given by you or your companions be disregarded than that the security granted in the name of Allah and His Prophet be violated. When you besiege a fort and the besieged want you to let them out in accordance with Allah's Command, do not let them come out in accordance with His Command, but do so at your (own) command, for you do not know whether or not you will be able to carry out Allah's behest with regard to them.

Read Complete
Hadith 4523

Sulaiman b. Buraida repotted on the authority of his father that when Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) sent an Amir with a detachment he called him and advised him. The rest of the hadith is the same.

Read Complete
Hadith 4524

This hadith has been transmitted on the authority of Shu'ba.

Read Complete