info@themuslim360.com +92 51 4862317

The Book Of Vows

Sahih Muslim Hadith # 4245

Hadith on The Book Of Vows of Sahih Bukhari 4245 is about The Book Of The Book Of Vows as written by Imam Muslim. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter The Book Of Vows has 19 as total Hadith on this topic.

Hadith Book

Chapters

Hadith

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِى عُقَيْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَأَصَابُوا مَعَهُ الْعَضْبَاءَ، فَأَتَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِي، وَبِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ فَقَالَ: «إِعْظَامًا لِذَلِكَ أَخَذْتُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ»، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَقِيقًا، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: «لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ»، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَظَمْآنُ فَأَسْقِنِي، قَالَ: «هَذِهِ حَاجَتُكَ»، فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَأُسِرَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَأُصِيبَتِ الْعَضْبَاءُ، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ وَكَانَ الْقَوْمُ يُرِيحُونَ نَعَمَهُمْ بَيْنَ يَدَيْ بُيُوتِهِمْ، فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنَ الْوَثَاقِ، فَأَتَتِ الْإِبِلَ، فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنَ الْبَعِيرِ رَغَا فَتَتْرُكُهُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْعَضْبَاءِ، فَلَمْ تَرْغُ، قَالَ: وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا، ثُمَّ زَجَرَتْهَا فَانْطَلَقَتْ، وَنَذِرُوا بِهَا فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ، قَالَ: وَنَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ رَآهَا النَّاسُ، فَقَالُوا: الْعَضْبَاءُ نَاقَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا نَذَرَتْ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ اللهِ، بِئْسَمَا جَزَتْهَا، نَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةٍ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ»، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ: «لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ

  مجھے زہیر بن حرب اور علی بن حجر سعدی نے حدیث بیان کی ۔ ۔ الفاظ زہیر کے ہیں ۔ ۔ ان دونوں نے کہا ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث سنائی ، کہا : ہمیں ایوب نے ابوقلابہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ثقیف ، بنو عقیل کے حلیف تھے ، ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو قید کر لیا ، ( بدلے میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنا لیا اور انہوں نے اس کے ساتھ اونٹنی عضباء بھی حاصل کر لی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کے پاس سے گزرے ، وہ بندھا ہوا تھا ، اس نے کہا : اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور پوچھا : "" کیا بات ہے؟ "" اس نے کہا : آپ نے مجھے کس وجہ سے پکڑا ہوا اور حاجیوں ( کی سواریوں ) سے سبقت لے جانے والی اونٹنی کو کیوں پکڑا ہے؟ آپ نے ۔ ۔ اس معاملے کو سنگین خیال کرتے ہوئے ۔ ۔ جواب دیا : "" میں نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کی بنا پر ( اس کے ازالے کے لیے ) پکڑا ہے ۔ "" پھر آپ وہاں سے پلٹے تو اس نے ( پھر سے ) آپ کو آواز دی اور کہا : اے محمد! اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت رحم کرنے والے ، نرم دل تھے ۔ پھر سے آپ اس کے پاس واپس آئے اور فرمایا : "" کیا بات ہے؟ "" اس نے کہا : ( اب ) میں مسلمان ہوں ۔ آپ نے فرمایا : اگر تم یہ بات اس وقت کہتے جب تم اپنے مالک آپ تھے ( آزاد تھے ) تو تم پوری بھلائی حاصل کر لیتے ( اب بھی ملے گی لیکن پوری نہ ہو گی ۔ ) "" پھر آپ پلٹے تو اس نے آپ کو آواز دی اور کہا : اے محمد! اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ ( پھر ) اس کے پاس آئے اور پوچھا : "" کیا بات ہے؟ "" اس نے کہا : میں بھوکا ہوں مجھے ( کھانا ) کھلائیے اور پیاسا ہوں مجھے ( پانی ) پلائیے ۔ آپ نے فرمایا : "" ( ہاں ) یہ تمہاری ( فورا پوری کی جانے والی ) ضرورت ہے ۔ "" اس کے بعد ( معاملات طے کر کے ) اسے دونوں آدمیوں کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا ۔ ( اونٹنی پیچھے رہ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئی ۔ لیکن مشرکین نے دوبارہ حملے کر کے پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا ۔ ) کہا : ( بعد میں ، غزوہ ذات القرد کے موقع پر ، مدینہ پر حملے کے دوران ) ایک انصاری عورت قید کر لی گئی اور عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی گئی ، عورت بندھنوں میں ( جکڑی ہوئی ) تھی ۔ لوگ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے رات کو آرام ( کرنے کے لیے بٹھا ) دیتے تھے ، ایک رات وہ ( خاتون ) اچانک بیڑیوں ( بندھنوں ) سے نکل بھاگی اور اونٹوں کے پاس آئی ، وہ ( سواری کے لیے ) جس اونٹ کے بھی قریب جاتی وہ بلبلانے لگتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی حتی کہ وہ عضباء تک پہنچ گئی تو وہ نہ بلبلائی ، کہا : وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی تو وہ اس کی پیٹھ کے پچھلے حصے پر بیٹھی ، اور اسے دوڑایا تو وہ چل پڑی ۔ لوگوں کو اس ( کے جانے ) کا علم ہو گیا ، انہوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن اس نے انہیں بے بس کر دیا ۔ کہا : اس عورت نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اس اونٹنی پر اسے نجات دی تو وہ اسے ( اللہ کی رضا کے لیے ) نحر کر دے گی ۔ جب وہ مدینہ پہنچی ، لوگوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے : یہ عضباء ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ۔ وہ عورت کہنے لگی کہ اس نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اسے اس اونٹنی پر نجات عطا فرما دی تو وہ اس اونٹنی کو ( اللہ کی راہ میں ) نحر کر دے گی ۔ اس پر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" سبحان اللہ! اس عورت نے اسے جو بدلہ دیا وہ کتنا برا ہے! اس نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اس کو اس اونٹنی پر نجات دے دی تو وہ اسے ذبح کر دے گی ، معصیت میں نذر پوری نہیں کی جا سکتی ، نہ ہی اس چیز میں جس کا بندہ مالک نہ ہو ۔ "" ابن حجر کی روایت میں ہے : "" اللہ کی معصیت میں کوئی نذر ( جائز ) نہیں

Imran b. Husain reported that the tribe of Thaqif was the ally of Banu 'Uqail. Thaqif took two persons from amongst the Companions of Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) as prisoners. The Companions of Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) took one person at Banu Uqail as prisoner, and captured al-'Adbi (the she-camel of the Holy Prophet) along with him. Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) came to him and he was tied with ropes. He said: Muhammad. He came near him and said: What is the matter with you? Thereupon he (the prisoner) said: Why have you taken me as prisoner and why have you caught hold of one proceeding the pilgrims (the she-camel as she carried the Prophet on her back and walked ahead of the multitude)? He (the Holy Prophet) said: (Yours is a great fault). I (my men) have caught hold of you for the crime of your allies, Banu Thaqif. He (the Holy Prophet) then turned away. He again called him and said: Muhammad, Muhammad, and since Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) was very compassionate, and tenderhearted, he returned to him, and said: What is the matter with you? He said: I am a Muslim, whereupon he (the Holy Prophet) said: Had you said this when you had been the master of yourself, you would have gained every success. He then turned away. He (the prisoner) called him again saying: Muhammad, Muhammad. He came to him and said: What is the matter with you? He said: I am hungry, feed me, and I am thirsty, so provide me with drink. He (the Holy Prophet) said: That is (to satisfy) your want. He was then ransomed for two persons (who had been taken prisoner by Thaqif). He (the narrator) said: A woman of the Ansar had been taken prisoner and also al-Adbi' was caught. The woman had been tied with ropes. The people were giving rest to their animals before their houses. She escaped one night from the bondage and came to the camels. As she drew near the camels, they fretted and fumed and so she left them until she came to al-, Adbi'. It did not fret and fume; it was docile She rode upon its back and drove it away and she went off. When they (the enemies of Islam) were warned of this, they went in search of it, but it (the she-camel) exhausted them. She (the woman) took vow for Allah, that in case He would save her through it, she would offer that as a sacrifice. As she reached Medina, the people saw her and they said: Here is al-Adbi, the she-camel of Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). She (the woman) said that she had taken a vow that if Allah would save her on its back, she would sacrifice it. They (the Prophet's Companions) came to Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and made a mention of that to him, whereupon he said: Hallowed be Allah, how ill she rewarded it that she took vow to Allah that if He saves her on its back, she would sacrifice it! There is no fulfillment of the vow in an act of disobedience, nor in an act over which a person has no control. In the version of Ibn Hujr (the words are): There is no vow in disobedience to Allah.

Share This:
More Hadiths From : The Book Of Vows
Hadith 4236

This hadith has been narrated on the authority of Zuhri with a different chains of transmitters.

Read Complete
Hadith 4237

Abdullah b. Umar reported: Allah's Messenger (may peace he upon him) singled out one day forbidding us to take vows and said: It would not avert anything; it is by which something is extracted from the miserly person.

Read Complete
Hadith 4238

Ibn Umar reported Allah's Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) as saying: The vow neither hastens anything nor defers anything, but is the means whereby (something) is extracted from the miserly person.

Read Complete
Hadith 4239

Ibn Umar reported that Allah's Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) forbade (people) taking vows, and said: It does not (necessarily) bring good (in the form of substantial, and tangible results), but it is the meant whereby something is extracted from the miserly persons.

Read Complete
Hadith 4240

This hadith has been narrated on the authority of Mansur with the same chain of transmitters.

Read Complete