info@themuslim360.com +92 51 4862317

The Book of Divorce

Sahih Muslim Hadith # 3695

Hadith on The Book of Divorce of Sahih Bukhari 3695 is about The Book Of The Book of Divorce as written by Imam Muslim. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter The Book of Divorce has 91 as total Hadith on this topic.

Hadith Book

Chapters

Hadith

وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ، وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: حَدَّثَنَا، وقَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللهُ تَعَالَى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} [التحريم: 4]؟ حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، عَدَلَ عُمَرُ، وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ، ثُمَّ أَتَانِي، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ، فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} [التحريم: 4]؟ قَالَ عُمَرُ: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ - قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَرِهَ وَاللهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ، وَلَمْ يَكْتُمْهُ - قَالَ: «هِيَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ»، ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي، فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَانْطَلَقْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: أَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ، وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ، لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا، وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ - يُرِيدُ عَائِشَةَ [ص:1112] قَالَ: وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ. وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي، ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي، ثُمَّ نَادَانِي، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: مَاذَا؟ أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا، حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: لَا أَدْرِي، هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ، فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ، فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ، فَصَمَتَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ فَجَلَسْتُ، فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، ثُمَّ أَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ، فَصَمَتَ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ، فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ، قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللهِ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ: «لَا»، فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ، لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللهِ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللهِ، إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكِ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمُ مِنْكِ، وَأَحَبُّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «نَعَمْ»، فَجَلَسْتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ، فَوَاللهِ، مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ، إِلَّا أَهَبًا ثَلَاثَةً، فَقُلْتُ: ادْعُ اللهَ يَا رَسُولَ اللهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ، فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ وَالرُّومِ، وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللهَ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، ثُمَّ قَالَ: «أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا»، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حَتَّى عَاتَبَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ

  معمر نے زہری سے ، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں شدت سے خواہش مند رہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ان دو کے بارے میں سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : "" اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو تو یقینا تمہارے دل آگے جھک گئے ہیں "" حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حج ( کا سفر ) کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا ، ( واپسی پر ) ہم راستے کے ایک حصے میں تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ ( اپنی ضرورت کے لیے راستے سے ) ایک طرف ہٹ گئے اور میں بھی پانی کا برتن لیے ان کے ساتھ ہٹ گیا ، وہ صحرا میں چلے گئے ، پھر میرے پاس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی انڈیلا ، انہوں نے وضو کیا تو میں نے کہا : اے امیر المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے وہ دو کون سی تھیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : "" اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرو تو یقینا تمہارے دل جھک گئے ہیں؟ "" عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ابن عباس! تم پر تعجب ہے! ۔ ۔ ۔ زہری نے کہا : اللہ کی قسم! انہوں ( ابن عباس رضی اللہ عنہ ) نے جو سوال ان سے کیا ، وہ انہیں برا لگا اور انہوں نے ( اس کا جواب ) چھپایا بھی نہیں ۔ ۔ انہوں نے کہا : وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھن تھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بات سنانے لگے اور کہا : ہم قریش کے لوگ ایسی قوم تھے جو اپنی عورتوں پر غالب تھے ، جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسے لوگ پائے جن پر ان کی عورتیں غالب تھیں ، چنانچہ ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں سے سیکھنا شروع کر دیا ۔ ( مردوں کو پلٹ کر جواب دینے لگیں ۔ ) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میرا گھر بالائی علاقے بنی امیہ بن زید کے محلے میں تھا ، ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا ، تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی ، مجھے اس کا جواب دینا بڑا ناگوار گزرا تو اس نے کہا : تمہیں یہ ناگوار گزرتا ہے کہ میں تمہیں جواب دوں؟ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے دیتی ہیں ، اور ان میں سے کوئی ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات تک پورا دن چھوڑ بھی دیتی ہے ( روٹھی رہتی ہے ۔ ) میں چلا ، حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گیا اور کہا : کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلٹ کر جواب دے دیتی ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ میں نے ( پھر ) پوچھا : کیا تم میں سے کوئی انہیں رات تک دن بھر کے لیے چھوڑ بھی دیتی ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہاں! میں نے کہا : تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑی ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو جاتی ہے کہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کی وجہ سے اللہ ( بھی ) اس پر ناراض ہو جائے گا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گی؟ ( آیندہ ) تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینا نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا ، تمہیں جو چاہئے مجھ سے مانگ لینا ۔ تمہیں یہ بات دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمہاری ہمسائی ( سوکن ) تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے ۔ ۔ ان کی مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ۔ ۔ انصار میں سے میرا ایک پڑوسی تھا ۔ ۔ ہم باری باری ( بالائی علاقے سے ) اتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔ ایک دن وہ اترتا اور ایک دن میں اترتا ، وہ میرے پاس وحی وغیرہ کی خبریں لاتا اور میں بھی ( اپنی باری کے دن ) اس کے پاس اسی طرح کی خبریں لاتا ۔ اور ( ان دنوں ) ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ غسانی ہمارے ساتھ لڑائی کرنے کے لیے گھوڑوں کو کھڑیاں لگا رہے تھے ، میرا ساتھی ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے عوالی سے ) اترا ، پھر عشاء کے وقت میرے پاس آیا ، میرا دروازہ کھٹکھٹایا ، پھر مجھے آواز دی ، میں باہر نکلا تو اس نے کہا : ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہو گیا ہے ۔ میں نے پوچھا : کیا ہوا؟ کیا غسانی آ گئے؟ اس نے کہا : نہیں ، بلکہ وہ اس سے بھی بڑا اور لمبا چوڑا ( معاملہ ) ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ۔ میں نے کہا : حفصہ تو ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑ گئی ۔ میں تو ( پہلے ہی ) سمجھتا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے ۔ ( دوسرے دن ) جب میں صبح کی نماز پڑھ چکا تو اپنے کپڑے پہنے ، مدینہ میں آیا اور حفصہ کے پاس گیا ، وہ رو رہی تھی ۔ میں نے پوچھا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟ اس نے کہا : میں نہیں جانتی ، البتہ آپ الگ تھلگ اس بالاخانے میں ہیں ۔ میں آپ کے سیاہ فام غلام کے پاس آیا ، اور اسے کہا ، عمر کے لیے اجازت مانگو ۔ وہ گیا ، پھر میری طرف باہر آیا اور کہا : میں نے آُ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارا ذکر کیا مگر آپ خاموش رہے ۔ میں چلا آیا حتی کہ منبر کے پاس آ کر بیٹھ گیا ، تو وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے ، ان میں سے بعض رو رہے تھے ، میں تھوڑی دیر بیٹھا ، پھر جو کیفیت مجھ پر طاری تھی وہ مجھ پر غالب آ گئی ۔ میں پھر غلام کے پاس آیا اور کہا : عمر کے لیے اجازت مانگو ، وہ اندر داخل ہوا ، پھر میری طرف باہر آیا اور کہا : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارا ذکر کیا ، مگر آپ خاموش رہے ۔ میں پیٹھ پھیر کر مڑا تو اچانک غلام مجھے بلانے لگا ، اور کہا : اندر چلے جاؤ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اجازت دے دی ہے ۔ میں اندر داخل ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا تو دیکھا کہ آپ بنتی کی ایک چٹائی پر سہارا لے کر بیٹھے تھے ، جس نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دیے تھے ، میں نے عرض کی : کیا آپ نے اللہ کے رسول! اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے میری طرف ( دیکھتے ہوئے ) اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا : "" نہیں ۔ "" میں نے کہا : اللہ اکبر ۔ اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں دیکھتے تو ہم قریش ایسی قوم تھے جو اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے ۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسی قوم کو پایا جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں ، تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں ( کی عادت ) سے سیکھنا شروع کر دیا ، چنانچہ ایک دن میں اپنی بیوی پر برہم ہوا تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی ۔ مجھے اس کا جواب دینا انتہائی ناگوار گزرا ، اس نے کہا : تمہیں یہ ناگوار گزرتا ہے کہ میں تمہیں جواب دیتی ہوں؟ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کو جواب دے دیتی ہیں ، اور ان میں سے کوئی تو آپ کو رات تک چھوڑ بھی دیتی ( روٹھ بھی جاتی ) ہے ۔ تو میں نے کہا : ان میں سے جس نے ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑی ۔ کیا ( یہ کام کر کے ) ان میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو سکتی ہے کہ اپنے رسول کی ناراضی کی وجہ سے اللہ اس پر ناراض ہو جائے ( اگر ایسا ہوا ) تو وہ تباہ ہو گئی ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے تو میں نے کہا : اللہ کے رسول! میں حفصہ کے پاس گیا اور اس نے کہا : تمہیں یہ بات کسی دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمہاری ہمسائی ( سوکن ) تم سے زیادہ خوبصورت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ محبوب ہے ۔ اس پر آپ دوبارہ مسکرائے تو میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! ( کچھ دیر بیٹھ کر ) بات چیت کروں ، آپ نے فرمایا : "" ہاں ۔ "" چنانچہ میں بیٹھ گیا اور میں نے سر اوپر کر کے گھر میں نگاہ دوڑائی تو اللہ کی قسم! اس میں تین چمڑوں کے سوا کچھ نہ تھا جس پر نظر پڑتی ، میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! دعا فرمائیے کہ اللہ آپ کی امت پر فراخی فرمائے ۔ فارسیوں اور رومیوں پر وسعت کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ، پھر فرمایا : "" ابن خطاب! کیا تم کسی شک میں مبتلا ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان ( کے حصے ) کی اچھی چیزیں جلد ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں ۔ "" میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش طلب کیجیے ۔ اور آپ نے ان ( ازواج ) پر سخت غصے کی وجہ سے قسم کھا لی تھی کہ ایک مہینہ ان کے پاس نہیں جائیں گے ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر عتاب فرمایا ۔ ( کہ بیویوں کی بات پر آپ کیوں غمزدہ ہوتے اور حلال چیزوں سے دور رہنے کی قسم کھاتے ہیں

Abdullah b. Abbas (Allah be pleased with tlicm) reported: I intended to ask 'Umar b. al-Khattab (Allah be pleased with him) about a verse, but I waited for one year to ask him out of his fear, until he went out for Pilgrimage and I also accompanied him. As he came back and we were on the way he stepped aside towards an Arak tree to ease himself. I waited for him until he was free. I then walked along with him and said: Commander of the Faithful, who are the two among the wives of Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) who backed up one another (in their demand for extra money)? He said: They were Hafsa and 'A'isha (Allah be pleased with them). I said to him: It is for one year that I intended to ask you about this matter but I could not date so on account of the awe for you. He said: Don't do that. If you think that I have any knowledge, do ask me about that. And if I were to know that, I would inform you. He (the narrator) stated that 'Umar had said: By Allah, during the days of ignorance we had no regard for women until Allah the Exalt- ed revealed about them what He has revealed, and appointed (turn) for them what he appointed. He said: It so happened that I was thinking about some matter that my wife said: I wish you had done that and that. I said to her: It does not concern you and you should not feel disturbed in a matter which I intend to do. She said to me: How strange is it that you, O son of Khattab, do not like anyone to retort upon you, whereas your daughter retorts upon Allah's Messenger (may peace be upou him) until he spends the day in vexation. 'Umar said: I took hold of my cloak, then came out of my house until I visited Hafsa and said to her: O daughter, (I heard) that you retort upon Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) until he spends the day in vexation, whereupon Hafsa said: By Allah, we do retort upon him. I said: You should bear in mind, my daughter, that I warn you against the punishment of Allah and the wrath of His Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). You may not be misled by one whose beauty has fascinated her, and the love of Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) for her. I ('Umar) then visited Umm Salama because of my relationship with her and I talked to her. Umm Salama said to me: Umar b. al-Khattab, how strange is it that you meddle with every matter so much so that you are anxious to interfere between Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and his wives, and this perturbed me so much that I refrained from saying what I had to say, so I came out of her apartment, and I had a friend from the Anar. When I had been absent (from the company of the Holy Prophet) he used to bring me the news and when he had been absent I used to bring him the news, and at that time we dreaded a king of Ghassan. It was mentioned to us that he intended to attack us, and our minds were haunted by him. My friend, the Ansari, came to me, and he knocked at the door and said: Open it, open it. I said: Has the Ghassani come? He said: (The matter is) more serious than that. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) has separated himself from his wives. I said: Let the nose of Hafsa and 'A'isha be besmeared with dust. I then took hold of my cloth and went out until I came and found Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) in his attic to which he climbed by means of a ladder made of date-palm, and the servant of Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) who was black had been sitting at the end of the ladder. I said: This is Umar. So permission was granted to me. I narrated this news to Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and as I narrated the news concerning Umm Salama, Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) smiled. He was lying on the mat and there was nothing between him and that (mat), and under his head there was a pillow made of leather and it was stuffed with plam fibres and at his feet were lying a heap of sant tree (acacia niloctica, meant for dyeing) and near his head there was hanging a hide. And I saw the marks of the maton the side of Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ), and so I wept. He said: What makes you weep? I said: Messenger of Allah, the Khusrau and the Ceasars (spendd their lives in) the midst of (luxuries), whereas you being Allah's Messenger (are leading your life in this poverty). Thereupon Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Don't you like that they should have riches of their world, and you have the Hereafter.

Share This:
More Hadiths From : The Book of Divorce
Hadith 3653

Abdullah (b. 'Umar) reported that he divorced a wife of his with the pronouncement of one divorce during the period of menstruation. Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) commanded him to take her back and keep her until she was purified, and then she entered the period of menses in his (house) for the second time. And he should wait until she was purified of her menses. And then if he would decide to divorce her, he should do so when she was purified before having a sexual intercourse with her; for that was the 'Idda which Allah had commanded for the divorce of women. Ibn Rumh in his narration made this addition: When 'Abdullah was asked about it, he said to one of them: If you have divorced your wife with one pronouncement or two (then you can take her back), for Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) commanded me to do it; but if you have divorced her with three pronouncements, then she is forbidden for you until she married another husband, and you disobeyed Allah in regard to the divorce of your wife what He had commanded you. (Muslim said: The word one divorce used by Laith is good.)

Read Complete
Hadith 3654

Ibn Umar (Allah be pleased with them) reported: I divorced my wife during the lifetime of Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) when she was in the state of menses. 'Umar (Allah be pleased with him) made a mention of it to Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ), whereupon he said: Command him to take her back and leave her (in that state) until she is purified. Then (let her) enter the period of second menses, and when she is purified, then divorce her (finally) before having a sexual intercourse with her, or retain her (finally). That is the 'Idda (the prescribed period) which Allah commanded (to be kept in view) while divorcing the women. 'Ubaidullah reported: I said to Nafi': What became of that divorce (pronounced within 'Idda)? He said: It was as one which she counted.

Read Complete
Hadith 3655

A hadith like this has been narrated on the authority of 'Ubaidullah, but he made no mention of the words of Ubaidullah that he said to Nafi'.

Read Complete
Hadith 3656

Ibn 'Umar (Allah be pleased with them) reported that he divorced his wife during the period of menses. 'Umar (Allah be, pleas'ed with him) asked Allah's Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ), and he commanded him ('Abdullah b. 'Umar) to have her back and then allow her respite until she enters the period of the second menses, and then allow her respite until she is purified, then divorce her (finally) before touching her (having a sexual intercourse with her), for that is the prescribed period which Allah commanded (to be kept in view) for divorcing the women. When Ibn 'Umar (Allah be pleased with them) was asked about the person who divorces his wife in the state of menses, he said: If you pronounced one divorce or two, Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) had commanded him to take her back, and then allow her respite until she enters the period of the second menses, and then allow her respite until she is purified, and then divorce her (finally) before touching her (having a sexual intercourse with her) ; and if you have pronounced (three divorces at one and the same time) you have in fact disobeyed your Lord with regard to what He commanded you about divorcing your wife. But she is however (finally separated from you).

Read Complete
Hadith 3657

Abdullah b. 'Umar (Allah be pleased with them) reported: I divorced my wife while she was in the state of menses. 'Umar (Allah be pleased with him) made mention of it to Allah's Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and he was enraged and he said: Command him to take her back until she enters the second ensuing menses other than the one in which he divorced her and in case he deems proper to divorce her, he should pronounce divorce (finally) before touching her (in the period) when she is purified of her menses, and that is the prescribed period in regard to divorce as Allah has commanded. 'Abdullah made a pronouncement of one divorce and it was counted in case of divorce. 'Abdullah took her back as Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) had commanded him.

Read Complete