The Book of Divorce
Sahih Muslim Hadith # 3692
Hadith on The Book of Divorce of Sahih Bukhari 3692 is about The Book Of The Book of Divorce as written by Imam Muslim. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter The Book of Divorce has 91 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ، يُحَدِّثُ قَالَ: مَكَثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ، هَيْبَةً لَهُ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ، فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ، فَقَالَ: تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ، قَالَ فَقُلْتُ لَهُ: وَاللهِ، إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَسَلْنِي عَنْهُ، فَإِنْ كُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُكَ، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللهِ، إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا، حَتَّى أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ إِذْ قَالَتْ لِي امْرَأَتِي: لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا، فَقُلْتُ لَهَا: وَمَا لَكِ أَنْتِ، وَلِمَا هَاهُنَا؟ وَمَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ، فَقَالَتْ لِي: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ، وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ، قَالَ عُمَرُ [ص:1109]: فَآخُذُ رِدَائِي، ثُمَّ أَخْرُجُ مَكَانِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ؟ فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَاللهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ، فَقُلْتُ: تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللهِ، وَغَضَبَ رَسُولِهِ، يَا بُنَيَّةُ، لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا، وَحُبُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا، ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا، فَكَلَّمْتُهَا، فَقَالَتْ لِي أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَدْ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ، حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ، قَالَ: فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا، وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ، وَنَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ، ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا، فَقَدِ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ، فَأَتَى صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ، وَقَالَ: افْتَحِ افْتَحْ، فَقُلْتُ: جَاءَ الْغَسَّانِيُّ؟ فَقَالَ: أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ، اعْتَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ، فَقُلْتُ: رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ، ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي، فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَى إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ، وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ، فَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ، فَأُذِنَ لِي، قَالَ عُمَرُ: فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ، تَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ، حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَضْبُورًا، وَعِنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً، فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: «مَا يُبْكِيكَ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ كِسْرَى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا، وَلَكَ الْآخِرَةُ
سلیمان بن بلال نے کہا : مجھے یحییٰ نے عبید بن حنین سے خبر دی کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ حدیث بیان کر رہے تھے ، انہوں نے کہا : میں نے سال بھر کے انتظار کیا ، میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا تھا مگر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان سے سوال کرنے کی ہمت نہ پاتا تھا ، حتی کہ وہ حج کرنے کے لیے روانہ ہوئے ، میں بھی ان کے ساتھ نکلا ، جب لوٹے تو ہم راستے میں کسی جگہ تھے کہ وہ قضائے حاجت کے لیے پیلو کے درخت کی طرف چلے گئے ، میں ان کے انتظار میں ٹھہر گیا ، حتی کہ وہ فارغ ہو گئے ، پھر میں ان کے ساتھ چل پڑا ، میں نے عرض کی : امیر المومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے وہ کون سی دو خواتین تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایکا کر لیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا : وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہن تھیں ۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم! میں ایک سال سے اس کے بارے میں آپ سے پوچھنا چاہتا تھا مگر آپ کے رعب کی وجہ سے ہمت نہ پاتا تھا ۔ انہوں نے کہا : ایسا نہیں کرنا ، جو بات بھی تم سمجھو کہ مجھے علم ہے ، اس کے بارے میں مجھ سے پوچھ لیا کرو ، اگر میں جانتا ہوا تو تمہیں بتا دوں گا ۔ کہا : اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم! جب ہم جاہلیت کے زمانے میں تھے تو عورتوں کو کسی شمار میں نہ رکھتے تھے ، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں جو نازل کیا ، سو نازل کیا ، اور جو ( مرتبہ ) انہیں دینا تھا سو دیا ۔ انہوں نے کہا : ایک مرتبہ میں کسی معاملے میں لگا ہوا تھا ، اس کے متعلق سوچ بچار کر رہا تھا کہ مجھے میری بیوی نے کہا : اگر آپ ایسا ایسا کر لیں ( تو بہتر ہو گا ۔ ) میں نے اسے جواب دیا : تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اور یہاں ( اس معاملے میں ) تمہیں کیا دلچسپی ہے؟ اور ایک کام جو میں کرنا چاہتا ہوں اس میں تمہارا تکلف ( زبردستی ٹانگ اڑانا ) کیسا؟اس نے مجھے جواب دیا : ابن خطاب! آپ پر تعجب ہے! آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کے بارے آگے بات کی جائے ، جبکہ آپ کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پلٹ کر جواب دیتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں ( اسی وقت ) اپنی چادر پکڑتا ہوں اور اپنی جگہ سے نکل کھڑا ہوتا ہوں ، یہاں تک کہ حفصہ کے پاس پہنچتا ہوں ۔ جا کر میں نے اس سے کہا : بٹیا! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جواب دیتی ہو کہ وہ سارا دن ناراض رہتے ہیں ۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : اللہ کی قسم! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہیں ۔ میں نے کہا : جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی سے ڈرا رہا ہوں ، میری بیٹی! تمہیں وہ ( عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے رویے کی بنا پر ) دھوکے میں نہ ڈال دے جسے اپنے حسن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے سے محبت پر ناز ہے ۔ پھر میں نکلا حتی کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آیا ، کیونکہ میری ان سے قرابت داری تھی ۔ میں نے ان سے بات کی تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے جواب دیا : ابن خطاب تم پر تعجب ہے! تم ہر کام میں دخل اندازی کرتے ہو حتی کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے مابین بھی دخل دو؟ انہوں نے مجھے اس طرح آڑے ہاتھوں لیا کہ جو ( عزم ) میں ( دل میں ) پا رہا تھا ( کہ میں ازواجِ مطہرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جواب دینے سے روک لوں گا ) مجھے توڑ کر اس سے الگ کر دیا ۔ چنانچہ میں ان کے ہاں سے نکل آیا ۔ میرا ایک انصاری ساتھی تھا ، جب میں ( آپ کی مجلس سے ) غیر حاضر ہوتا تو وہ میرے پاس ( وہاں کی ) خبر لاتا اور جب وہ غیر حاضر ہوتا تو میں اس کے پاس خبر لے آتا ۔ ہم اس زمانے میں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ سے ڈر رہے تھے ۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر چڑھائی کرنا چاہتے ہے ۔ اس ( کی وجہ ) سے ہمارے سینے ( اندیشوں سے ) بھرے ہوئے تھے ۔ ( اچانک ایک دن ) میرا انصاری دوست آ کر دروازہ کھٹکھٹانے لگا اور کہنے لگا : کھولو ، کھولو! میں نے پوچھا : غسانی آ گیا ہے؟ اس نے کہا : اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے ۔ میں نے کہا : حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھن کی ناک خاک آلود ہو! پھر میں اپنے کپرے لے کر نکل کھڑا ہوا ، حتی کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ) حاضر ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانے میں تھے جس پر سیڑھی کے ذریعے چڑھ کر جانا ہوتا تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام سیڑھی کے سرے پر بیٹھا ہوا تھا ۔ میں نے کہا : یہ عمر ہے ( خدمت میں حاضری کی اجازت چاہتا ہے ) ، تو مجھے اجازت عطا ہوئی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ساری بات بیان کی ، جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے ۔ آپ ایک چٹائی پر ( لیٹے ہوئے ) تھے ، آپ کے ( جسم مبارک ) اور اس ( چٹائی ) کے درمیان کچھ نہ تھا ۔ آپ کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ آپ کے پاؤں کے قریب کیکر کی چھال کا چھوٹا سا گٹھا پڑا تھا اور آپ کے سر کے قریب کچھ کچے چمڑے لٹکے ہوئے تھے ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے تو رو پڑا ۔ آپ نے پوچھا : " تمہیں کیا رلا رہا ہے؟ " عرض کی : اے اللہ کے رسول! کسریٰ اور قیصر دونوں ( کفر کے باوجود ) اُس ناز و نعمت میں ہیں جس میں ہیں اور آپ تو اللہ کے رسول ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لیے ( صرف ) دنیا ہو اور تمہارے لیے آخرت ہو
Abdullah b. Abbas (Allah be pleased with tlicm) reported: I intended to ask 'Umar b. al-Khattab (Allah be pleased with him) about a verse, but I waited for one year to ask him out of his fear, until he went out for Pilgrimage and I also accompanied him. As he came back and we were on the way he stepped aside towards an Arak tree to ease himself. I waited for him until he was free. I then walked along with him and said: Commander of the Faithful, who are the two among the wives of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) who backed up one another (in their demand for extra money)? He said: They were Hafsa and 'A'isha (Allah be pleased with them). I said to him: It is for one year that I intended to ask you about this matter but I could not date so on account of the awe for you. He said: Don't do that. If you think that I have any knowledge, do ask me about that. And if I were to know that, I would inform you. He (the narrator) stated that 'Umar had said: By Allah, during the days of ignorance we had no regard for women until Allah the Exalt- ed revealed about them what He has revealed, and appointed (turn) for them what he appointed. He said: It so happened that I was thinking about some matter that my wife said: I wish you had done that and that. I said to her: It does not concern you and you should not feel disturbed in a matter which I intend to do. She said to me: How strange is it that you, O son of Khattab, do not like anyone to retort upon you, whereas your daughter retorts upon Allah's Messenger (may peace be upou him) until he spends the day in vexation. 'Umar said: I took hold of my cloak, then came out of my house until I visited Hafsa and said to her: O daughter, (I heard) that you retort upon Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) until he spends the day in vexation, whereupon Hafsa said: By Allah, we do retort upon him. I said: You should bear in mind, my daughter, that I warn you against the punishment of Allah and the wrath of His Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ). You may not be misled by one whose beauty has fascinated her, and the love of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) for her. I ('Umar) then visited Umm Salama because of my relationship with her and I talked to her. Umm Salama said to me: Umar b. al-Khattab, how strange is it that you meddle with every matter so much so that you are anxious to interfere between Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and his wives, and this perturbed me so much that I refrained from saying what I had to say, so I came out of her apartment, and I had a friend from the Anar. When I had been absent (from the company of the Holy Prophet) he used to bring me the news and when he had been absent I used to bring him the news, and at that time we dreaded a king of Ghassan. It was mentioned to us that he intended to attack us, and our minds were haunted by him. My friend, the Ansari, came to me, and he knocked at the door and said: Open it, open it. I said: Has the Ghassani come? He said: (The matter is) more serious than that. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) has separated himself from his wives. I said: Let the nose of Hafsa and 'A'isha be besmeared with dust. I then took hold of my cloth and went out until I came and found Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) in his attic to which he climbed by means of a ladder made of date-palm, and the servant of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) who was black had been sitting at the end of the ladder. I said: This is Umar. So permission was granted to me. I narrated this news to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and as I narrated the news concerning Umm Salama, Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) smiled. He was lying on the mat and there was nothing between him and that (mat), and under his head there was a pillow made of leather and it was stuffed with plam fibres and at his feet were lying a heap of sant tree (acacia niloctica, meant for dyeing) and near his head there was hanging a hide. And I saw the marks of the maton the side of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ), and so I wept. He said: What makes you weep? I said: Messenger of Allah, the Khusrau and the Ceasars (spendd their lives in) the midst of (luxuries), whereas you being Allah's Messenger (are leading your life in this poverty). Thereupon Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Don't you like that they should have riches of their world, and you have the Hereafter.
More Hadiths From : The Book of Divorce
Hadith 3653
Abdullah (b. 'Umar) reported that he divorced a wife of his with the pronouncement of one divorce during the period of menstruation. Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) commanded him to take her back and keep her until she was purified, and then she entered the period of menses in his (house) for the second time. And he should wait until she was purified of her menses. And then if he would decide to divorce her, he should do so when she was purified before having a sexual intercourse with her; for that was the 'Idda which Allah had commanded for the divorce of women. Ibn Rumh in his narration made this addition: When 'Abdullah was asked about it, he said to one of them: If you have divorced your wife with one pronouncement or two (then you can take her back), for Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) commanded me to do it; but if you have divorced her with three pronouncements, then she is forbidden for you until she married another husband, and you disobeyed Allah in regard to the divorce of your wife what He had commanded you. (Muslim said: The word one divorce used by Laith is good.)
Read CompleteHadith 3654
Ibn Umar (Allah be pleased with them) reported: I divorced my wife during the lifetime of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) when she was in the state of menses. 'Umar (Allah be pleased with him) made a mention of it to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ), whereupon he said: Command him to take her back and leave her (in that state) until she is purified. Then (let her) enter the period of second menses, and when she is purified, then divorce her (finally) before having a sexual intercourse with her, or retain her (finally). That is the 'Idda (the prescribed period) which Allah commanded (to be kept in view) while divorcing the women. 'Ubaidullah reported: I said to Nafi': What became of that divorce (pronounced within 'Idda)? He said: It was as one which she counted.
Read CompleteHadith 3655
A hadith like this has been narrated on the authority of 'Ubaidullah, but he made no mention of the words of Ubaidullah that he said to Nafi'.
Read CompleteHadith 3656
Ibn 'Umar (Allah be pleased with them) reported that he divorced his wife during the period of menses. 'Umar (Allah be, pleas'ed with him) asked Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ), and he commanded him ('Abdullah b. 'Umar) to have her back and then allow her respite until she enters the period of the second menses, and then allow her respite until she is purified, then divorce her (finally) before touching her (having a sexual intercourse with her), for that is the prescribed period which Allah commanded (to be kept in view) for divorcing the women. When Ibn 'Umar (Allah be pleased with them) was asked about the person who divorces his wife in the state of menses, he said: If you pronounced one divorce or two, Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had commanded him to take her back, and then allow her respite until she enters the period of the second menses, and then allow her respite until she is purified, and then divorce her (finally) before touching her (having a sexual intercourse with her) ; and if you have pronounced (three divorces at one and the same time) you have in fact disobeyed your Lord with regard to what He commanded you about divorcing your wife. But she is however (finally separated from you).
Read CompleteHadith 3657
Abdullah b. 'Umar (Allah be pleased with them) reported: I divorced my wife while she was in the state of menses. 'Umar (Allah be pleased with him) made mention of it to Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and he was enraged and he said: Command him to take her back until she enters the second ensuing menses other than the one in which he divorced her and in case he deems proper to divorce her, he should pronounce divorce (finally) before touching her (in the period) when she is purified of her menses, and that is the prescribed period in regard to divorce as Allah has commanded. 'Abdullah made a pronouncement of one divorce and it was counted in case of divorce. 'Abdullah took her back as Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had commanded him.
Read Complete