THE BOOK OF AD-DIYAIT (Blood - Money)
Sahih Bukhari Hadith # 6899
Hadith on AD-DIYAIT (Blood - Money) of Sahih Bukhari 6899 is about The Book Of THE BOOK OF AD-DIYAIT (Blood - Money) as written by Imam Muhammad al-Bukhari. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter THE BOOK OF AD-DIYAIT (Blood - Money) has 57 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَسَدِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مِنْ آلِ أَبِي قِلَابَةَ ،حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَبْرَزَ سَرِيرَهُ يَوْمًا لِلنَّاسِ ، ثُمَّ أَذِنَ لَهُمْ ، فَدَخَلُوا ، فَقَالَ : مَا تَقُولُونَ فِي الْقَسَامَةِ ؟ ، قَالَ : نَقُولُ : الْقَسَامَةُ الْقَوَدُ بِهَا حَقٌّ ، وَقَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ ، قَالَ لِي : مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ ؟ ، وَنَصَبَنِي لِلنَّاسِ ، فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ : عِنْدَكَ رُءُوسُ الْأَجْنَادِ وَأَشْرَافُ الْعَرَبِ ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ مُحْصَنٍ بِدِمَشْقَ أَنَّهُ قَدْ زَنَى لَمْ يَرَوْهُ ، أَكُنْتَ تَرْجُمُهُ ؟ ، قَالَ : لَا ، قُلْتُ : أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ بِحِمْصَ أَنَّهُ سَرَقَ ، أَكُنْتَ تَقْطَعُهُ وَلَمْ يَرَوْهُ ؟ ، قَالَ : لَا ، قُلْتُ : فَوَاللَّهِ مَا قَتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ : رَجُلٌ قَتَلَ بِجَرِيرَةِ نَفْسِهِ فَقُتِلَ ، أَوْ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ ، أَوْ رَجُلٌ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ ، فَقَالَ الْقَوْمُ : أَوَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَطَعَ فِي السَّرَقِ ، وَسَمَرَ الْأَعْيُنَ ، ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ ، فَقُلْتُ : أَنَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثَ أَنَسٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ : أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَبَايَعُوهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ، فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ ، فَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَفَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ فَتُصِيبُونَ مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا ، قَالُوا : بَلَى ، فَخَرَجُوا ، فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا ، فَصَحُّوا ، فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَطْرَدُوا النَّعَمَ ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَرْسَلَ فِي آثَارِهِمْ ، فَأُدْرِكُوا ، فَجِيءَ بِهِمْ ، فَأَمَرَ بِهِمْ ، فَقُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ ، وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ ، ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا ، قُلْتُ : وَأَيُّ شَيْءٍ أَشَدُّ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ ، ارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ ، وَقَتَلُوا ، وَسَرَقُوا ، فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ : وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ كَالْيَوْمِ قَطُّ ، فَقُلْتُ : أَتَرُدُّ عَلَيَّ حَدِيثِي يَا عَنْبَسَةُ ، قَالَ ، لَا ، وَلَكِنْ جِئْتَ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ ، وَاللَّهِ لَا يَزَالُ هَذَا الْجُنْدُ بِخَيْرٍ مَا عَاشَ هَذَا الشَّيْخُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ ، قُلْتُ : وَقَدْ كَانَ فِي هَذَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، دَخَلَ عَلَيْهِ نَفَرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ ، فَتَحَدَّثُوا عِنْدَهُ ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ، فَقُتِلَ ، فَخَرَجُوا بَعْدَهُ ، فَإِذَا هُمْ بِصَاحِبِهِمْ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ ، فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، صَاحِبُنَا كَانَ تَحَدَّثَ مَعَنَا ، فَخَرَجَ بَيْنَ أَيْدِينَا فَإِذَا نَحْنُ بِهِ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : بِمَنْ تَظُنُّونَ أَوْ مَنْ تَرَوْنَ قَتَلَهُ ؟ قَالُوا : نَرَى أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِ فَدَعَاهُمْ ، فَقَالَ : أَنْتُمْ قَتَلْتُمْ هَذَا ؟ قَالُوا : لَا ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ نَفَلَ خَمْسِينَ مِنَ الْيَهُودِ مَا قَتَلُوهُ ؟ ، فَقَالُوا : مَا يُبَالُونَ أَنْ يَقْتُلُونَا أَجْمَعِينَ ثُمَّ يَنْتَفِلُونَ ، قَالَ : أَفَتَسْتَحِقُّونَ الدِّيَةَ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ ؟ ، قَالُوا : مَا كُنَّا لِنَحْلِفَ ، فَوَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ ، قُلْتُ : وَقَدْ كَانَتْ هُذَيْلٌ خَلَعُوا خَلِيعًا لَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَطَرَقَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْيَمَنِ بِالْبَطْحَاءِ ، فَانْتَبَهَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ ، فَحَذَفَهُ بِالسَّيْفِ ، فَقَتَلَهُ ، فَجَاءَتْ هُذَيْلٌ ، فَأَخَذُوا الْيَمَانِيَّ ، فَرَفَعُوهُ إِلَى عُمَرَ بِالْمَوْسِمِ ، وَقَالُوا : قَتَلَ صَاحِبَنَا ، فَقَالَ : إِنَّهُمْ قَدْ خَلَعُوهُ ، فَقَالَ : يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْ هُذَيْلٍ مَا خَلَعُوهُ ، قَالَ : فَأَقْسَمَ مِنْهُمْ تِسْعَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا ، وَقَدِمَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مِنَ الشَّأْمِ فَسَأَلُوهُ أَنْ يُقْسِمَ ، فَافْتَدَى يَمِينَهُ مِنْهُمْ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ ، فَأَدْخَلُوا مَكَانَهُ رَجُلًا آخَرَ ، فَدَفَعَهُ إِلَى أَخِي الْمَقْتُولِ ، فَقُرِنَتْ يَدُهُ بِيَدِهِ ، قَالُوا : فَانْطَلَقَا وَالْخَمْسُونَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِنَخْلَةَ أَخَذَتْهُمُ السَّمَاءُ ، فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي الْجَبَلِ ، فَانْهَجَمَ الْغَارُ عَلَى الْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا ، فَمَاتُوا جَمِيعًا ، وَأَفْلَتَ الْقَرِينَانِ وَاتَّبَعَهُمَا حَجَرٌ ، فَكَسَرَ رِجْلَ أَخِي الْمَقْتُولِ ، فَعَاشَ حَوْلًا ثُمَّ مَاتَ ، قُلْتُ : وَقَدْ كَانَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ أَقَادَ رَجُلًا بِالْقَسَامَةِ ، ثُمَّ نَدِمَ بَعْدَ مَا صَنَعَ ، فَأَمَرَ بِالْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا ، فَمُحُوا مِنَ الدِّيوَانِ وَسَيَّرَهُمْ إِلَى الشَّأْمِ .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر اسماعیل بن ابراہیم الاسدی نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن ابی عثمان نے بیان کیا، ان سے آل ابوقلابہ کے غلام ابورجاء نے بیان کیا اس نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن دربار عام کیا اور سب کو اجازت دی۔ لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے پوچھا: قسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کسی نے کہا کہ قسامہ کے ذریعہ قصاص لینا حق ہے اور خلفاء نے اس کے ذریعہ قصاص لیا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا: ابوقلابہ! تمہاری کیا رائے ہے؟ اور مجھے عوام کے ساتھ لا کھڑا کر دیا۔ میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! آپ کے پاس عرب کے سردار اور شریف لوگ رہتے ہیں آپ کی کیا رائے ہو گی اگر ان میں سے پچاس آدمی کسی دمشقی کے شادی شدہ شخص کے بارے میں زنا کی گواہی دیں جبکہ ان لوگوں نے اس شخص کو دیکھا بھی نہ ہو کیا آپ ان کی گواہی پر اس شخص کو رجم کر دیں گے۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر انہیں ( اشراف عرب ) میں سے پچاس افراد حمص کے کسی شخص کے متعلق چوری کی گواہی دے دیں اس کو بغیر دیکھے تو کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا، پس اللہ کی قسم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو تین حالتوں کے سوا قتل نہیں کرایا۔ ایک وہ شخص جس نے کسی کو ظلماً قتل کیا ہو اور اس کے بدلے میں قتل کیا گیا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس نے شادی کے بعد زنا کیا ہو۔ تیسرا وہ شخص جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی ہو اور اسلام سے پھر گیا ہو۔ لوگوں نے اس پر کہا، کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نہیں بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کے معاملہ میں ہاتھ پیر کاٹ دئیے تھے اور آنکھوں میں سلائی پھروائی تھی اور پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث سناتا ہوں۔ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے آٹھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں ناموافق ہوئی اور وہ بیمار پڑ گئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر کیوں نہیں تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے اونٹوں میں چلے جاتے اور اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب پیتے۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ نکل گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہو گئے۔ پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہنکا لے گئے۔ اس کی اطلاع جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے، پھر وہ پکڑے گئے اور لائے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا اور آخر وہ مر گئے۔ میں نے کہا کہ ان کے عمل سے بڑھ کر اور کیا جرم ہو سکتا ہے اسلام سے پھر گئے اور قتل کیا اور چوری کی۔ عنبہ بن سعید نے کہا میں نے آج جیسی بات کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے کہا: عنبہ! کیا تم میری حدیث رد کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ نے یہ حدیث واقعہ کے مطابق بیان کر دی ہے۔ واللہ! اہل شام کے ساتھ اس وقت تک خیر و بھلائی رہے گی جب تک یہ شیخ ( ابوقلابہ ) ان میں موجود رہیں گے۔ میں نے کہا کہ اس قسامہ کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت ہے۔ انصار کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی پھر ان میں سے ایک صاحب ان کے سامنے ہی نکلے ( خیبر کے ارادہ سے ) اور وہاں قتل کر دئیے گئے۔ اس کے بعد دوسرے صحابہ بھی گئے اور دیکھا کہ ان کے ساتھ خون میں تڑپ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی اور کہا: یا رسول اللہ! ہمارے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور اچانک وہ ہمیں ( خیبر میں ) خون میں تڑپتے ملے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور پوچھا کہ تمہارا کس پر شبہ ہے کہ انہوں نے ان کو قتل کیا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے ہی قتل کیا ہے پھر آپ نے یہودیوں کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کیا تم نے انہیں قتل کیا ہے؟ انہوں نے انکار کر دیا تو آپ نے فرمایا، کیا تم مان جاؤ گے اگر پچاس یہودی اس کی قسم لیں کہ انہوں نے مقتول کو قتل نہیں کیا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ لوگ ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ہم سب کو قتل کرنے کے بعد پھر قسم کھا لیں ( کہ قتل انہوں نے نہیں کیا ہے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھا لیں اور خون بہا کے مستحق ہو جائیں۔ صحابہ نے عرض کیا: ہم بھی قسم کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس سے خون بہا دیا ( ابوقلابہ نے کہا کہ ) میں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اپنے ایک آدمی کو اپنے میں سے نکال دیا تھا پھر وہ شخص بطحاء میں یمن کے ایک شخص کے گھر رات کو آیا۔ اتنے میں ان میں سے کوئی شخص بیدار ہو گیا اور اس نے اس پر تلوار سے حملہ کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد ہذیل کے لوگ آئے اور انہوں نے یمنی کو ( جس نے قتل کیا تھا ) پکڑا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے حج کے زمانہ میں اور کہا کہ اس نے ہمارے آدمی کو قتل کر دیا ہے۔ یمنی نے کہا کہ انہوں نے اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب ہذیل کے پچاس آدمی اس کی قسم کھائیں کہ انہوں نے اسے نکالا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر ان میں سے انچاس آدمیوں نے قسم کھائی پھر انہیں کے قبیلہ کا ایک شخص شام سے آیا تو انہوں نے اس سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قسم کھائے لیکن اس نے اپنی قسم کے بدلہ میں ایک ہزار درہم دے کر اپنا پیچھا قسم سے چھڑا لیا۔ ہذلیوں نے اس کی جگہ ایک دوسرے آدمی کو تیار کر لیا پھر وہ مقتول کے بھائی کے پاس گیا اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم پچاس جنہوں نے قسم کھائی تھی روانہ ہوئے۔ جب مقام نخلہ پر پہنچے تو بارش نے انہیں آیا۔ سب لوگ پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے اور غار ان پچاسوں کے اوپر گر پڑا۔ جنہوں نے قسم کھائی تھی اور سب کے سب مر گئے۔ البتہ دونوں ہاتھ ملانے والے بچ گئے۔ لیکن ان کے پیچھے سے ایک پتھر لڑھک کر گرا اور اس سے مقتول کے بھائی کی ٹانگ ٹوٹ گئی اس کے بعد وہ ایک سال اور زندہ رہا پھر مر گیا۔ میں نے کہا کہ عبدالملک بن مروان نے قسامہ پر ایک شخص سے قصاص لی تھی پھر اسے اپنے کئے ہوئے پر ندامت ہوئی اور اس نے ان پچاسوں کے متعلق جنہوں نے قسم کھائی تھی حکم دیا اور ان کے نام رجسٹر سے کاٹ دئیے گئے پھر انہوں نے شام بھیج دیا۔
Narrated Abu Qilaba: Once `Umar bin `Abdul `Aziz sat on his throne in the courtyard of his house so that the people might gather before him. Then he admitted them and (when they came in), he said, What do you think of Al-Qasama? They said, We say that it is lawful to depend on Al-Qasama in Qisas, as the previous Muslim Caliphs carried out Qisas depending on it. Then he said to me, O Abu Qilaba! What do you say about it? He let me appear before the people and I said, O Chief of the Believers! You have the chiefs of the army staff and the nobles of the Arabs. If fifty of them testified that a married man had committed illegal sexual intercourse in Damascus but they had not seen him (doing so), would you stone him? He said, No. I said, If fifty of them testified that a man had committed theft in Hums, would you cut off his hand though they did not see him? He replied, No. I said, By Allah, Allah's Apostle never killed anyone except in one of the following three situations: (1) A person who killed somebody unjustly, was killed (in Qisas,) (2) a married person who committed illegal sexual intercourse and (3) a man who fought against Allah and His Apostle and deserted Islam and became an apostate. Then the people said, Didn't Anas bin Malik narrate that Allah's Apostle cut off the hands of the thieves, branded their eyes and then, threw them in the sun? I said, I shall tell you the narration of Anas. Anas said: Eight persons from the tribe of `Ukl came to Allah's Apostle and gave the Pledge of allegiance for Islam (became Muslim). The climate of the place (Medina) did not suit them, so they became sick and complained about that to Allah's Apostle. He said (to them ), Won't you go out with the shepherd of our camels and drink of the camels' milk and urine (as medicine)? They said, Yes. So they went out and drank the camels' milk and urine, and after they became healthy, they killed the shepherd of Allah's Apostle and took away all the camels. This news reached Allah's Apostle , so he sent (men) to follow their traces and they were captured and brought (to the Prophet). He then ordered to cut their hands and feet, and their eyes were branded with heated pieces of iron, and then he threw them in the sun till they died. I said, What can be worse than what those people did? They deserted Islam, committed murder and theft. Then 'Anbasa bin Sa`id said, By Allah, I never heard a narration like this of today. I said, O 'Anbasa! You deny my narration? 'Anbasa said, No, but you have related the narration in the way it should be related. By Allah, these people are in welfare as long as this Sheikh (Abu Qilaba) is among them. I added, Indeed in this event there has been a tradition set by Allah's Apostle. The narrator added: Some Ansari people came to the Prophet and discussed some matters with him, a man from amongst them went out and was murdered. Those people went out after him, and behold, their companion was swimming in blood. They returned to Allah's Apostle and said to him, O Allah's Apostle, we have found our companion who had talked with us and gone out before us, swimming in blood (killed). Allah's Apostle went out and asked them, Whom do you suspect or whom do you think has killed him? They said, We think that the Jews have killed him. The Prophet sent for the Jews and asked them, Did you kill this (person)? They replied, No. He asked the Al-Ansars, Do you agree that I let fifty Jews take an oath that they have not killed him? They said, It matters little for the Jews to kill us all and then take false oaths. He said, Then would you like to receive the Diya after fifty of you have taken an oath (that the Jews have killed your man)? They said, We will not take the oath. Then the Prophet himself paid them the Diya (Blood-money). The narrator added, The tribe of Hudhail repudiated one of their men (for his evil conduct) in the Pre-lslamic period of Ignorance. Then, at a place called Al-Batha' (near Mecca), the man attacked a Yemenite family at night to steal from them, but a. man from the family noticed him and struck him with his sword and killed him. The tribe of Hudhail came and captured the Yemenite and brought him to `Umar during the Hajj season and said, He has killed our companion. The Yemenite said, But these people had repudiated him (i.e., their companion). `Umar said, Let fifty persons of Hudhail swear that they had not repudiated him. So forty-nine of them took the oath and then a person belonging to them, came from Sham and they requested him to swear similarly, but he paid one-thousand Dirhams instead of taking the oath. They called another man instead of him and the new man shook hands with the brother of the deceased. Some people said, We and those fifty men who had taken false oaths (Al-Qasama) set out, and when they reached a place called Nakhlah, it started raining so they entered a cave in the mountain, and the cave collapsed on those fifty men who took the false oath, and all of them died except the two persons who had shaken hands with each other. They escaped death but a stone fell on the leg of the brother of the deceased and broke it, whereupon he survived for one year and then died. I further said, `Abdul Malik bin Marwan sentenced a man to death in Qisas (equality in punishment) for murder, basing his judgment on Al-Qasama, but later on he regretted that judgment and ordered that the names of the fifty persons who had taken the oath (Al-Qasama), be erased from the register, and he exiled them in Sham.
More Hadiths From : THE BOOK OF AD-DIYAIT (Blood - Money)
Hadith 6861
Narrated `Abdullah: A man said, O Allah's Apostle! Which sin is the greatest in Allah's Sight? The Prophet said, To set up a rival unto Allah though He Alone created you . The man said, What is next? The Prophet said, To kill your son lest he should share your food with you. The man said, What is next? The Prophet said, To commit illegal sexual intercourse with the wife of your neighbor. So Allah revealed in confirmation of this narration:-- 'And those who invoke not with Allah, any other god. Nor kill, such life as Allah has forbidden except for just cause nor commit illegal sexual intercourse. And whoever does this shall receive the punishment.' (25.68)
Read CompleteHadith 6862
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said, A faithful believer remains at liberty regarding his religion unless he kills somebody unlawfully.
Read CompleteHadith 6863
Narrated `Abdullah bin `Umar: One of the evil deeds with bad consequence from which there is no escape for the one who is involved in it is to kill someone unlawfully.
Read CompleteHadith 6864
Narrated `Abdullah: The Prophet said, The first cases to be decided among the people (on the Day of Resurrection) will be those of blood-shed.
Read CompleteHadith 6865
Narrated Al-Miqdad bin `Amr Al-Kindi: An ally of Bani Zuhra who took part in the battle of Badr with the Prophet, that he said, O Allah's Apostle! If I meet an unbeliever and we have a fight, and he strikes my hand with the sword and cuts it off, and then takes refuge from me under a tree, and says, 'I have surrendered to Allah (i.e. embraced Islam),' may I kill him after he has said so? Allah's Apostle said, Do not kill him. Al- Miqdad said, But O Allah's Apostle! He had chopped off one of my hands and he said that after he had cut it off. May I kill him? The Prophet said. Do not kill him for if you kill him, he would be in the position in which you had been before you kill him, and you would be in the position in which he was before he said the sentence.
Read Complete