THE BOOK OF AL- MAGHAZI
Sahih Bukhari Hadith # 4040
Hadith on AL- MAGHAZI of Sahih Bukhari 4040 is about The Book Of THE BOOK OF AL- MAGHAZI as written by Imam Muhammad al-Bukhari. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter THE BOOK OF AL- MAGHAZI has 525 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا شُرَيْحٌ هُوَ ابْنُ مَسْلَمَةَ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ فِي نَاسٍ مَعَهُمْ , فَانْطَلَقُوا حَتَّى دَنَوْا مِنَ الْحِصْنِ ، فَقَالَ : لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ امْكُثُوا أَنْتُمْ حَتَّى أَنْطَلِقَ أَنَا فَأَنْظُرَ ، قَالَ : فَتَلَطَّفْتُ أَنْ أَدْخُلَ الْحِصْنَ فَفَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ ، قَالَ : فَخَرَجُوا بِقَبَسٍ يَطْلُبُونَهُ ، قَالَ : فَخَشِيتُ أَنْ أُعْرَفَ ، قَالَ : فَغَطَّيْتُ رَأْسِي وَجَلَسْتُ كَأَنِّي أَقْضِي حَاجَةً ، ثُمَّ نَادَى صَاحِبُ الْبَابِ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ فَلْيَدْخُلْ قَبْلَ أَنْ أُغْلِقَهُ فَدَخَلْتُ ، ثُمَّ اخْتَبَأْتُ فِي مَرْبِطِ حِمَارٍ عِنْدَ بَابِ الْحِصْنِ , فَتَعَشَّوْا عِنْدَ أَبِي رَافِعٍ وَتَحَدَّثُوا حَتَّى ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى بُيُوتِهِمْ , فَلَمَّا هَدَأَتِ الْأَصْوَاتُ وَلَا أَسْمَعُ حَرَكَةً خَرَجْتُ ، قَالَ : وَرَأَيْتُ صَاحِبَ الْبَابِ حَيْثُ وَضَعَ مِفْتَاحَ الْحِصْنِ فِي كَوَّةٍ , فَأَخَذْتُهُ فَفَتَحْتُ بِهِ بَابَ الْحِصْنِ ، قَالَ : قُلْتُ : إِنْ نَذِرَ بِي الْقَوْمُ انْطَلَقْتُ عَلَى مَهَلٍ , ثُمَّ عَمَدْتُ إِلَى أَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ فَغَلَّقْتُهَا عَلَيْهِمْ مِنْ ظَاهِرٍ ، ثُمَّ صَعِدْتُ إِلَى أَبِي رَافِعٍ فِي سُلَّمٍ فَإِذَا الْبَيْتُ مُظْلِمٌ قَدْ طَفِئَ سِرَاجُهُ فَلَمْ أَدْرِ أَيْنَ الرَّجُلُ فَقُلْتُ : يَا أَبَا رَافِعٍ ، قَالَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : فَعَمَدْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ وَصَاحَ فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا ، قَالَ : ثُمَّ جِئْتُ كَأَنِّي أُغِيثُهُ ، فَقُلْتُ : مَا لَكَ يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي ؟ فَقَالَ : أَلَا أُعْجِبُكَ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ دَخَلَ عَلَيَّ رَجُلٌ فَضَرَبَنِي بِالسَّيْفِ ، قَالَ : فَعَمَدْتُ لَهُ أَيْضًا , فَأَضْرِبُهُ أُخْرَى فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا فَصَاحَ وَقَامَ أَهْلُهُ ، قَالَ : ثُمَّ جِئْتُ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي كَهَيْئَةِ الْمُغِيثِ فَإِذَا هُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَى ظَهْرِهِ فَأَضَعُ السَّيْفَ فِي بَطْنِهِ ، ثُمَّ أَنْكَفِئُ عَلَيْهِ حَتَّى سَمِعْتُ صَوْتَ الْعَظْمِ ، ثُمَّ خَرَجْتُ دَهِشًا حَتَّى أَتَيْتُ السُّلَّمَ أُرِيدُ أَنْ أَنْزِلَ فَأَسْقُطُ مِنْهُ , فَانْخَلَعَتْ رِجْلِي فَعَصَبْتُهَا ، ثُمَّ أَتَيْتُ أَصْحَابِي أَحْجُلُ ، فَقُلْتُ : انْطَلِقُوا فَبَشِّرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ , فَلَمَّا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ صَعِدَ النَّاعِيَةُ ، فَقَالَ : أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ ، قَالَ : فَقُمْتُ أَمْشِي مَا بِي قَلَبَةٌ , فَأَدْرَكْتُ أَصْحَابِي قَبْلَ أَنْ يَأْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرْتُهُ .
ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، ہم سے شریح ابن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عتیک اور عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہما کو چند صحابہ کے ساتھ ابورافع ( کے قتل ) کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ روانہ ہوئے جب اس کے قلعہ کے نزدیک پہنچے تو عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہر جاؤ پہلے میں جاتا ہوں، دیکھوں صورت حال کیا ہے۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( قلعہ کے قریب پہنچ کر ) میں اندر جانے کے لیے تدابیر کرنے لگا۔ اتفاق سے قلعہ کا ایک گدھا گم تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس گدھے کو تلاش کرنے کے لیے قلعہ والے روشنی لے کر باہر نکلے۔ بیان کیا کہ میں ڈرا کہ کہیں مجھے کوئی پہچان نہ لے۔ اس لیے میں نے اپنا سر ڈھک لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہے۔ اس کے بعد دربان نے آواز دی کہ اس سے پہلے کہ میں دروازہ بند کر لوں جسے قلعہ کے اندر داخل ہونا ہے وہ جلدی آ جائے۔ میں ( نے موقع غنیمت سمجھا اور ) اندر داخل ہو گیا اور قلعہ کے دروازے کے پاس ہی جہاں گدھے باندھے جاتے تھے وہیں چھپ گیا۔ قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اسے قصے سناتے رہے۔ آخر کچھ رات گئے وہ سب قلعہ کے اندر ہی اپنے اپنے گھروں میں واپس آ گئے۔ اب سناٹا چھا چکا تھا اور کہیں کوئی حرکت نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے میں اس طویلہ سے باہر نکلا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ دربان نے کنجی ایک طاق میں رکھی ہے۔ میں نے پہلے کنجی اپنے قبضہ میں لے لی اور پھر سب سے پہلے قلعہ کا دروازہ کھولا۔ بیان کیا کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرا علم ہو گیا تو میں بڑی آسانی کے ساتھ بھاگ سکوں گا۔ اس کے بعد میں نے ان کے کمروں کے دروازے کھولنے شروع کئے اور انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ اب میں زینوں سے ابورافع کے بالاخانوں تک پہنچ چکا تھا۔ اس کے کمرہ میں اندھیرا تھا۔ اس کا چراغ گل کر دیا گیا تھا۔ میں یہ نہیں اندازہ کر پایا تھا کہ ابورافع کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی۔ اے ابورافع! اس پر وہ بولا کہ کون ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آواز کی طرف میں بڑھا اور میں نے تلوار سے اس پر حملہ کیا۔ وہ چلانے لگا لیکن یہ وار اوچھا پڑا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر دوبارہ میں اس کے قریب پہنچا، گویا میں اس کی مدد کو آیا ہوں۔ میں نے آواز بدل کر پوچھا۔ ابورافع کیا بات پیش آئی ہے؟ اس نے کہا تیری ماں غارت ہو، ابھی کوئی شخص میرے کمرے میں آ گیا اور اس نے تلوار سے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس مرتبہ پھر میں نے اس کی آواز کی طرف بڑھ کر دوبارہ حملہ کیا۔ اس حملہ میں بھی وہ قتل، نہ ہو سکا۔ پھر وہ چلانے لگا اور اس کی بیوی بھی اٹھ گئی ( اور چلانے لگی ) ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بظاہر مددگار بن کر پہنچا اور میں نے اپنی آواز بدل لی۔ اس وقت وہ چت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے اسے دبایا۔ آخر جب میں نے ہڈی ٹوٹنے کی آواز سن لی تو میں وہاں سے نکلا، بہت گھبرایا ہوا۔ اب زینہ پر آ چکا تھا۔ میں اترنا چاہتا تھا کہ نیچے گر پڑا۔ جس سے میرا پاؤں ٹوٹ گیا۔ میں نے اس پر پٹی باندھی اور لنگڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سناؤ۔ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک کہ اس کی موت کا اعلان نہ سن لوں۔ چنانچہ صبح کے وقت موت کا اعلان کرنے والا ( قلعہ کی فصیل پر ) چڑھا اور اس نے اعلان کیا کہ ابورافع کی موت واقع ہو گئی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں چلنے کے لیے اٹھا، مجھے ( کامیابی کی خوشخبری میں ) کوئی تکلیف معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس سے پہلے کہ میرے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں، میں نے اپنے ساتھیوں کو پا لیا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سنائی۔
Narrated Al-Bara: Allah's Apostle sent `Abdullah bin 'Atik and `Abdullah bin `Utba with a group of men to Abu Rafi` (to kill him). They proceeded till they approached his castle, whereupon `Abdullah bin Atik said to them, Wait (here), and in the meantime I will go and see. `Abdullah said later on, I played a trick in order to enter the castle. By chance, they lost a donkey of theirs and came out carrying a flaming light to search for it. I was afraid that they would recognize me, so I covered my head and legs and pretended to answer the call to nature. The gatekeeper called, 'Whoever wants to come in, should come in before I close the gate.' So I went in and hid myself in a stall of a donkey near the gate of the castle. They took their supper with Abu Rafi` and had a chat till late at night. Then they went back to their homes. When the voices vanished and I no longer detected any movement, I came out. I had seen where the gate-keeper had kept the key of the castle in a hole in the wall. I took it and unlocked the gate of the castle, saying to myself, 'If these people should notice me, I will run away easily.' Then I locked all the doors of their houses from outside while they were inside, and ascended to Abu Rafi` by a staircase. I saw the house in complete darkness with its light off, and I could not know where the man was. So I called, 'O Abu Rafi`!' He replied, 'Who is it?' I proceeded towards the voice and hit him. He cried loudly but my blow was futile. Then I came to him, pretending to help him, saying with a different tone of my voice, ' What is wrong with you, O Abu Rafi`?' He said, 'Are you not surprised? Woe on your mother! A man has come to me and hit me with a sword!' So again I aimed at him and hit him, but the blow proved futile again, and on that Abu Rafi` cried loudly and his wife got up. I came again and changed my voice as if I were a helper, and found Abu Rafi` lying straight on his back, so I drove the sword into his belly and bent on it till I heard the sound of a bone break. Then I came out, filled with astonishment and went to the staircase to descend, but I fell down from it and got my leg dislocated. I bandaged it and went to my companions limping. I said (to them), 'Go and tell Allah's Apostle of this good news, but I will not leave (this place) till I hear the news of his (i.e. Abu Rafi`'s) death.' When dawn broke, an announcer of death got over the wall and announced, 'I convey to you the news of Abu Rafi`'s death.' I got up and proceeded without feeling any pain till I caught up with my companions before they reached the Prophet to whom I conveyed the good news.
More Hadiths From : THE BOOK OF AL- MAGHAZI
Hadith 3949
Narrated Abu 'Is-haq: Once, while I was sitting beside Zaid bin Al-Arqam, he was asked, How many Ghazwat did the Prophet undertake? Zaid replied, Nineteen. They said, In how many Ghazwat did you join him? He replied, Seventeen. I asked, Which of these was the first? He replied, Al-`Ashira or Al- `Ashiru.
Read CompleteHadith 3950
Narrated `Abdullah bin Mas`ud: From Sa`d bin Mu`adh: Sa`d bin Mu`adh was an intimate friend of Umaiya bin Khalaf and whenever Umaiya passed through Medina, he used to stay with Sa`d, and whenever Sa`d went to Mecca, he used to stay with Umaiya. When Allah's Apostle arrived at Medina, Sa`d went to perform `Umra and stayed at Umaiya's home in Mecca. He said to Umaiya, Tell me of a time when (the Mosque) is empty so that I may be able to perform Tawaf around the Ka`ba. So Umaiya went with him about midday. Abu Jahl met them and said, O Abu Safwan! Who is this man accompanying you? He said, He is Sa`d. Abu Jahl addressed Sa`d saying, I see you wandering about safely in Mecca inspite of the fact that you have given shelter to the people who have changed their religion (i.e. became Muslims) and have claimed that you will help them and support them. By Allah, if you were not in the company of Abu Safwan, you would not be able to go your family safely. Sa`d, raising his voice, said to him, By Allah, if you should stop me from doing this (i.e. performing Tawaf) I would certainly prevent you from something which is more valuable for you, that is, your passage through Medina. On this, Umaiya said to him, O Sa`d do not raise your voice before Abu-l-Hakam, the chief of the people of the Valley (of Mecca). Sa`d said, O Umaiya, stop that! By Allah, I have heard Allah's Apostle predicting that the Muslim will kill you. Umaiya asked, In Mecca? Sa`d said, I do not know. Umaiya was greatly scared by that news. When Umaiya returned to his family, he said to his wife, O Um Safwan! Don't you know what Sa`d told me? She said, What has he told you? He replied, He claims that Muhammad has informed them (i.e. companions that they will kill me. I asked him, 'In Mecca?' He replied, 'I do not know. Then Umaiya added, By Allah, I will never go out of Mecca. But when the day of (the Ghazwa of) Badr came, Abu Jahl called the people to war, saying, Go and protect your caravan. But Umaiya disliked to go out (of Mecca). Abu Jahl came to him and said, O Abu Safwan! If the people see you staying behind though you are the chief of the people of the Valley, then they will remain behind with you. Abu Jahl kept on urging him to go until he (i.e. Umaiya) said, As you have forced me to change my mind, by Allah, I will buy the best camel in Mecca. Then Umaiya said (to his wife). O Um Safwan, prepare what I need (for the journey). She said to him, O Abu Safwan! Have you forgotten what your Yathribi brother told you? He said, No, but I do not want to go with them but for a short distance. So when Umaiya went out, he used to tie his camel wherever he camped. He kept on doing that till Allah caused him to be killed at Badr.
Read CompleteHadith 3951
Narrated Ka`b bin Malik: I never failed to join Allah's Apostle in any of his Ghazawat except in the Ghazwa of Tabuk. However, I did not take part in the Ghazwa of Badr, but none who failed to take part in it, was blamed, for Allah's Apostle had gone out to meet the caravans of (Quraish, but Allah caused them (i.e. Muslims) to meet their enemy unexpectedly (with no previous intention) .
Read CompleteHadith 3952
Narrated Ibn Masud: I witnessed Al-Miqdad bin Al-Aswad in a scene which would have been dearer to me than anything had I been the hero of that scene. He (i.e. Al-Miqdad) came to the Prophet while the Prophet was urging the Muslims to fight with the pagans. Al-Miqdad said, We will not say as the People of Moses said: Go you and your Lord and fight you two. (5.27). But we shall fight on your right and on your left and in front of you and behind you. I saw the face of the Prophet getting bright with happiness, for that saying delighted him.
Read CompleteHadith 3953
Narrated Ibn `Abbas: On the day of the battle of Badr, the Prophet said, O Allah! I appeal to You (to fulfill) Your Covenant and Promise. O Allah! If Your Will is that none should worship You (then give victory to the pagans). Then Abu Bakr took hold of him by the hand and said, This is sufficient for you. The Prophet came out saying, Their multitude will be put to flight and they will show their backs. (54.45)
Read Complete