THE MERITS OF AL-ANSAR
Sahih Bukhari Hadith # 3905
Hadith on THE MERITS OF AL-ANSAR of Sahih Bukhari 3905 is about The Book Of THE MERITS OF AL-ANSAR as written by Imam Muhammad al-Bukhari. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter THE MERITS OF AL-ANSAR has 173 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ , وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً , فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا نَحْوَ أَرْضِ الْحَبَشَةِ حَتَّى بَلَغَ بَرْكَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ ، فَقَالَ : أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَخْرَجَنِي قَوْمِي فَأُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الْأَرْضِ وَأَعْبُدَ رَبِّي ، قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ : فَإِنَّ مِثْلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرَجُ , إِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ , وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ , وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ , فَأَنَا لَكَ جَارٌ ارْجِعْ وَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبَلَدِكَ , فَرَجَعَ وَارْتَحَلَ مَعَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ , فَطَافَ ابْنُ الدَّغِنَةِ عَشِيَّةً فِي أَشْرَافِ قُرَيْشٍ ، فَقَالَ لَهُمْ : إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلَا يُخْرَجُ , أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَيَصِلُ الرَّحِمَ , وَيَحْمِلُ الْكَلَّ وَيَقْرِي الضَّيْفَ , وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ , فَلَمْ تُكَذِّبْ قُرَيْشٌ بِجِوَارِ ابْنِ الدَّغِنَةِ ، وَقَالُوا لِابْنِ الدَّغِنَةِ : مُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَلْيُصَلِّ فِيهَا , وَلْيَقْرَأْ مَا شَاءَ وَلَا يُؤْذِينَا بِذَلِكَ , وَلَا يَسْتَعْلِنْ بِهِ , فَإِنَّا نَخْشَى أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا ، فَقَالَ ذَلِكَ ابْنُ الدَّغِنَةِ لِأَبِي بَكْرٍ , فَلَبِثَ أَبُو بَكْرٍ بِذَلِكَ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ , وَلَا يَسْتَعْلِنُ بِصَلَاتِهِ وَلَا يَقْرَأُ فِي غَيْرِ دَارِهِ , ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَكْرٍ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ , وَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ , فَيَنْقَذِفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ وَهُمْ يَعْجَبُونَ مِنْهُ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ , وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَّاءً لَا يَمْلِكُ عَيْنَيْهِ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ ، وَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ , فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ ، فَقَالُوا : إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ بِجِوَارِكَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ , فَقَدْ جَاوَزَ ذَلِكَ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ , فَأَعْلَنَ بِالصَّلَاةِ وَالْقِرَاءَةِ فِيهِ , وَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا , فَانْهَهُ فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ , وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ يُعْلِنَ بِذَلِكَ فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَّتَكَ فَإِنَّا قَدْ كَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَكَ وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لِأَبِي بَكْرٍ الِاسْتِعْلَانَ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَأَتَى ابْنُ الدَّغِنَةِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ ، فَقَالَ : قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَاقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ , فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ , وَإِمَّا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيَّ ذِمَّتِي فَإِنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ الْعَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : فَإِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُسْلِمِينَ : إِنِّي أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ وَهُمَا الْحَرَّتَانِ , فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ وَرَجَعَ عَامَّةُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ إِلَى الْمَدِينَةِ وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ قِبَلَ الْمَدِينَةِ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلَى رِسْلِكَ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : وَهَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ ، قَالَ : نَعَمْ , فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَصْحَبَهُ وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ وَهُوَ الْخَبَطُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : قَالَ عُرْوَةُ : قَالَتْ عَائِشَةُ : فَبَيْنَمَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ ، قَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ : هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَقَنِّعًا فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : فِدَاءٌ لَهُ أَبِي وَأُمِّي وَاللَّهِ مَا جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا أَمْرٌ ، قَالَتْ : فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ , فَأُذِنَ لَهُ فَدَخَلَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ : أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : الصَّحَابَةُ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَعَمْ ، قَالَأَبُو بَكْرٍ : فَخُذْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَى رَاحِلَتَيَّ هَاتَيْنِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بِالثَّمَنِ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الْجِهَازِ وَصَنَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ , فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قِطْعَةً مِنْ نِطَاقِهَا فَرَبَطَتْ بِهِ عَلَى فَمِ الْجِرَابِ , فَبِذَلِكَ سُمِّيَتْ ذَاتَ النِّطَاقَيْنِ ، قَالَتْ : ثُمَّ لَحِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلِ ثَوْرٍ فَكَمَنَا فِيهِ ثَلَاثَ لَيَالٍ يَبِيتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ غُلَامٌ شَابٌّ ثَقِفٌ لَقِنٌ , فَيُدْلِجُ مِنْ عِنْدِهِمَا بِسَحَرٍ فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ , فَلَا يَسْمَعُ أَمْرًا يُكْتَادَانِ بِهِ إِلَّا وَعَاهُ حَتَّى يَأْتِيَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِينَ يَخْتَلِطُ الظَّلَامُ , وَيَرْعَى عَلَيْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ فَيُرِيحُهَا عَلَيْهِمَا حِينَ تَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ الْعِشَاءِ , فَيَبِيتَانِ فِي رِسْلٍ وَهُوَ لَبَنُ مِنْحَتِهِمَا وَرَضِيفِهِمَا حَتَّى يَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ بِغَلَسٍ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلَاثِ , وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ بْنِ عَدِيٍّ هَادِيَا خِرِّيتًا , وَالْخِرِّيتُ الْمَاهِرُ بِالْهِدَايَةِ قَدْ غَمَسَ حِلْفًا فِي آلِ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِيِّ وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ , فَأَمِنَاهُ فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلَاثٍ , وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ وَالدَّلِيلُ فَأَخَذَ بِهِمْ طَرِيقَ السَّوَاحِلِ .
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا میں نے اپنے ماں باپ کو دین اسلام ہی پر پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب ( مکہ میں ) مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی ہجرت کا ارادہ کر کے نکلے۔ جب آپ مقام برک غماد پر پہنچے تو آپ کی ملاقات ابن الدغنہ سے ہوئی جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ملک ملک کی سیاحت کروں ( اور آزادی کے ساتھ ) اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا لیکن ابوبکر! تم جیسے انسان کو اپنے وطن سے نہ خود نکلنا چاہئے اور نہ اسے نکالا جانا چاہیے۔ تم محتاجوں کی مدد کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور حق پر قائم رہنے کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتے ہو، میں تمہیں پناہ دیتا ہوں واپس چلو اور اپنے شہر ہی میں اپنے رب کی عبادت کرو۔ چنانچہ وہ واپس آ گئے اور ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ واپس آیا۔ اس کے بعد ابن الدغنہ قریش کے تمام سرداروں کے یہاں شام کے وقت گیا اور سب سے اس نے کہا کہ ابوبکر جیسے شخص کو نہ خود نکلنا چاہیے اور نہ نکالا جانا چاہیے۔ کیا تم ایسے شخص کو نکال دو گے جو محتاجوں کی امداد کرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے اور حق کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتا ہے؟ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ سے انکار نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہہ دو کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر کے اندر ہی کیا کریں، وہیں نماز پڑھیں اور جو جی چاہے وہیں پڑھیں، اپنی عبادات سے ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں، اس کا اظہار نہ کریں کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اس فتنہ میں نہ مبتلا ہو جائیں۔ یہ باتیں ابن الدغنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی آ کر کہہ دیں کچھ دنوں تک تو آپ اس پر قائم رہے اور اپنے گھر کے اندر ہی اپنے رب کی عبادت کرتے رہے، نہ نماز برسر عام پڑھتے اور نہ گھر کے سوا کسی اور جگہ تلاوت قرآن کرتے تھے لیکن پھر انہوں نے کچھ سوچا اور اپنے گھر کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ بنائی جہاں آپ نے نماز پڑھنی شروع کی اور تلاوت قرآن بھی وہیں کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں مشرکین کی عورتوں اور بچوں کا مجمع ہونے لگا۔ وہ سب حیرت اور پسندیدگی کے ساتھ دیکھتے رہا کرتے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو آنسوؤں کو روک نہ سکتے تھے۔ اس صورت حال سے مشرکین قریش کے سردار گھبرا گئے اور انہوں نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا جب ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اس سے کہا کہ ہم نے ابوبکر کے لیے تمہاری پناہ اس شرط کے ساتھ تسلیم کی تھی کہ اپنے رب کی عبادت وہ اپنے گھر کے اندر کیا کریں لیکن انہوں نے شرط کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے گھر کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ بنا کر برسر عام نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کرنے لگے ہیں۔ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اس فتنے میں نہ مبتلا ہو جائیں اس لیے تم انہیں روک دو، اگر انہیں یہ شرط منظور ہو کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کیا کریں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اظہار ہی کریں تو ان سے کہو کہ تمہاری پناہ واپس دے دیں، کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری دی ہوئی پناہ میں ہم دخل اندازی کریں لیکن ابوبکر کے اس اظہار کو بھی ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ابن الدغنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور اس نے کہا کہ جس شرط کے ساتھ میں نے آپ کے ساتھ عہد کیا تھا وہ آپ کو معلوم ہے، اب یا آپ اس شرط پر قائم رہیے یا پھر میرے عہد کو واپس کیجئے کیونکہ یہ مجھے گوارا نہیں کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو پناہ دی تھی۔ لیکن اس میں ( قریش کی طرف سے ) دخل اندازی کی گئی۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں اور اپنے رب عزوجل کی پناہ پر راضی اور خوش ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہاری ہجرت کی جگہ مجھے خواب میں دکھائی گئی ہے وہاں کھجور کے باغات ہیں اور دو پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع ہے، چنانچہ جنہیں ہجرت کرنی تھی انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور جو لوگ سر زمین حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ چلے آئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کچھ دنوں کے لیے توقف کرو۔ مجھے توقع ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی مل جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا واقعی آپ کو بھی اس کی توقع ہے، میرے باپ آپ پر فدا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سفر کے خیال سے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور دو اونٹنیوں کو جو ان کے پاس تھیں کیکر کے پتے کھلا کر تیار کرنے لگے چار مہینے تک۔ ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، ایک دن ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹھے ہوئے تھے بھری دوپہر تھی کہ کسی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر پر رومال ڈالے تشریف لا رہے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ہمارے یہاں اس وقت آنے کا نہیں تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ ایسے وقت میں آپ کسی خاص وجہ سے ہی تشریف لا رہے ہوں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر داخل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اس وقت یہاں سے تھوڑی دیر کے لیے سب کو اٹھا دو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یہاں اس وقت تو سب گھر کے ہی آدمی ہیں، میرے باپ آپ پر فدا ہوں، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یا رسول اللہ! کیا مجھے رفاقت سفر کا شرف حاصل ہو سکے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ان دونوں میں سے ایک اونٹنی آپ لے لیجئے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن قیمت سے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جلدی جلدی ان کے لیے تیاریاں شروع کر دیں اور کچھ توشہ ایک تھیلے میں رکھ دیا۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنے پٹکے کے ٹکڑے کر کے تھیلے کا منہ اس سے باندھ دیا اور اسی وجہ سے انکا نام ذات النطاقین ( دو پٹکے والی ) پڑ گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جبل ثور کے غار میں پڑاؤ کیا اور تین راتیں گزاریں۔ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما رات وہیں جا کر گزارا کرتے تھے، یہ نوجوان بہت سمجھدار تھے اور ذہین بےحد تھے۔ سحر کے وقت وہاں سے نکل آتے اور صبح سویرے ہی مکہ پہنچ جاتے جیسے وہیں رات گزری ہو۔ پھر جو کچھ یہاں سنتے اور جس کے ذریعہ ان حضرات کے خلاف کاروائی کے لیے کوئی تدبیر کی جاتی تو اسے محفوظ رکھتے اور جب اندھیرا چھا جاتا تو تمام اطلاعات یہاں آ کر پہنچاتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ آپ ہر دو کے لیے قریب ہی دودھ دینے والی بکری چرایا کرتے تھے اور جب کچھ رات گزر جاتی تو اسے غار میں لاتے تھے۔ آپ اسی پر رات گزارتے اس دودھ کو گرم لوہے کے ذریعہ گرم کر لیا جاتا تھا۔ صبح منہ اندھیرے ہی عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ غار سے نکل آتے تھے ان تین راتوں میں روزانہ ان کا یہی دستور تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنی الدیل جو بنی عبد بن عدی کی شاخ تھی، کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لیے اجرت پر اپنے ساتھ رکھا تھا۔ یہ شخص راستوں کا بڑا ماہر تھا۔ آل عاص بن وائل سہمی کا یہ حلیف بھی تھا اور کفار قریش کے دین پر قائم تھا۔ ان بزرگوں نے اس پر اعتماد کیا اور اپنے دونوں اونٹ اس کے حوالے کر دیئے۔ قرار یہ پایا تھا کہ تین راتیں گزار کر یہ شخص غار ثور میں ان سے ملاقات کرے۔ چنانچہ تیسری رات کی صبح کو وہ دونوں اونٹ لے کر ( آ گیا ) اب عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور یہ راستہ بتانے والا ان حضرات کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے ساحل کے راستے سے ہوتے ہوئے۔
Narrated 'Aisha: (the wife of the Prophet) I never remembered my parents believing in any religion other than the true religion (i.e. Islam), and (I don't remember) a single day passing without our being visited by Allah's Apostle in the morning and in the evening. When the Muslims were put to test (i.e. troubled by the pagans), Abu Bakr set out migrating to the land of Ethiopia, and when he reached Bark-al-Ghimad, Ibn Ad-Daghina, the chief of the tribe of Qara, met him and said, O Abu Bakr! Where are you going? Abu Bakr replied, My people have turned me out (of my country), so I want to wander on the earth and worship my Lord. Ibn Ad-Daghina said, O Abu Bakr! A man like you should not leave his home-land, nor should he be driven out, because you help the destitute, earn their livings, and you keep good relations with your Kith and kin, help the weak and poor, entertain guests generously, and help the calamity-stricken persons. Therefore I am your protector. Go back and worship your Lord in your town. So Abu Bakr returned and Ibn Ad-Daghina accompanied him. In the evening Ibn Ad-Daghina visited the nobles of Quraish and said to them. A man like Abu Bakr should not leave his homeland, nor should he be driven out. Do you (i.e. Quraish) drive out a man who helps the destitute, earns their living, keeps good relations with his Kith and kin, helps the weak and poor, entertains guests generously and helps the calamity-stricken persons? So the people of Quraish could not refuse Ibn Ad-Daghina's protection, and they said to Ibn Ad-Daghina, Let Abu Bakr worship his Lord in his house. He can pray and recite there whatever he likes, but he should not hurt us with it, and should not do it publicly, because we are afraid that he may affect our women and children. Ibn Ad-Daghina told Abu Bakr of all that. Abu Bakr stayed in that state, worshipping his Lord in his house. He did not pray publicly, nor did he recite Quran outside his house. Then a thought occurred to Abu Bakr to build a mosque in front of his house, and there he used to pray and recite the Quran. The women and children of the pagans began to gather around him in great number. They used to wonder at him and look at him. Abu Bakr was a man who used to weep too much, and he could not help weeping on reciting the Quran. That situation scared the nobles of the pagans of Quraish, so they sent for Ibn Ad-Daghina. When he came to them, they said, We accepted your protection of Abu Bakr on condition that he should worship his Lord in his house, but he has violated the conditions and he has built a mosque in front of his house where he prays and recites the Quran publicly. We are now afraid that he may affect our women and children unfavorably. So, prevent him from that. If he likes to confine the worship of his Lord to his house, he may do so, but if he insists on doing that openly, ask him to release you from your obligation to protect him, for we dislike to break our pact with you, but we deny Abu Bakr the right to announce his act publicly. Ibn Ad-Daghina went to Abu- Bakr and said, ( O Abu Bakr!) You know well what contract I have made on your behalf; now, you are either to abide by it, or else release me from my obligation of protecting you, because I do not want the 'Arabs hear that my people have dishonored a contract I have made on behalf of another man. Abu Bakr replied, I release you from your pact to protect me, and am pleased with the protection from Allah. At that time the Prophet was in Mecca, and he said to the Muslims, In a dream I have been shown your migration place, a land of date palm trees, between two mountains, the two stony tracts. So, some people migrated to Medina, and most of those people who had previously migrated to the land of Ethiopia, returned to Medina. Abu Bakr also prepared to leave for Medina, but Allah's Apostle said to him, Wait for a while, because I hope that I will be allowed to migrate also. Abu Bakr said, Do you indeed expect this? Let my father be sacrificed for you! The Prophet said, Yes. So Abu Bakr did not migrate for the sake of Allah's Apostle in order to accompany him. He fed two she-camels he possessed with the leaves of As-Samur tree that fell on being struck by a stick for four months. One day, while we were sitting in Abu Bakr's house at noon, someone said to Abu Bakr, This is Allah's Apostle with his head covered coming at a time at which he never used to visit us before. Abu Bakr said, May my parents be sacrificed for him. By Allah, he has not come at this hour except for a great necessity. So Allah's Apostle came and asked permission to enter, and he was allowed to enter. When he entered, he said to Abu Bakr. Tell everyone who is present with you to go away. Abu Bakr replied, There are none but your family. May my father be sacrificed for you, O Allah's Apostle! The Prophet said, i have been given permission to migrate. Abu Bakr said, Shall I accompany you? May my father be sacrificed for you, O Allah's Apostle! Allah's Apostle said, Yes. Abu Bakr said, O Allah's Apostle! May my father be sacrificed for you, take one of these two she-camels of mine. Allah's Apostle replied, (I will accept it) with payment. So we prepared the baggage quickly and put some journey food in a leather bag for them. Asma, Abu Bakr's daughter, cut a piece from her waist belt and tied the mouth of the leather bag with it, and for that reason she was named Dhat-un-Nitaqain (i.e. the owner of two belts). Then Allah's Apostle and Abu Bakr reached a cave on the mountain of Thaur and stayed there for three nights. 'Abdullah bin Abi Bakr who was intelligent and a sagacious youth, used to stay (with them) aver night. He used to leave them before day break so that in the morning he would be with Quraish as if he had spent the night in Mecca. He would keep in mind any plot made against them, and when it became dark he would (go and) inform them of it. 'Amir bin Fuhaira, the freed slave of Abu Bakr, used to bring the milch sheep (of his master, Abu Bakr) to them a little while after nightfall in order to rest the sheep there. So they always had fresh milk at night, the milk of their sheep, and the milk which they warmed by throwing heated stones in it. 'Amir bin Fuhaira would then call the herd away when it was still dark (before daybreak). He did the same in each of those three nights. Allah's Apostle and Abu Bakr had hired a man from the tribe of Bani Ad-Dail from the family of Bani Abd bin Adi as an expert guide, and he was in alliance with the family of Al-'As bin Wail As-Sahmi and he was on the religion of the infidels of Quraish. The Prophet and Abu Bakr trusted him and gave him their two she-camels and took his promise to bring their two she camels to the cave of the mountain of Thaur in the morning after three nights later. And (when they set out), 'Amir bin Fuhaira and the guide went along with them and the guide led them along the sea-shore.
More Hadiths From : THE MERITS OF AL-ANSAR
Hadith 3776
Narrated Ghailan bin Jarir: I asked Anas, Tell me about the name 'Al-Ansar.; Did you call yourselves by it or did Allah call you by it? He said, Allah called us by it. We used to visit Anas (at Basra) and he used to narrate to us the virtues and deeds of the Ansar, and he used to address me or a person from the tribe of Al-Azd and say, Your tribe did so-and-so on such-and-such a day.
Read CompleteHadith 3777
Narrated `Aisha: The day of Bu'ath (i.e. Day of fighting between the two tribes of the Ansar, the Aus and Khazraj) was brought about by Allah for the good of His Apostle so that when Allah's Apostle reached (Medina), the tribes of Medina had already divided and their chiefs had been killed and wounded. So Allah had brought about the battle for the good of H is Apostle in order that they (i.e. the Ansar) might embrace Islam.
Read CompleteHadith 3778
Narrated Anas: On the day of the Conquest of Mecca, when the Prophet had given (from the booty) the Quraish, the Ansar said, By Allah, this is indeed very strange: While our swords are still dribbling with the blood of Quraish, our war booty are distributed amongst them. When this news reached the Prophet he called the Ansar and said, What is this news that has reached me from you? They used not to tell lies, so they replied, What has reached you is true. He said, Doesn't it please you that the people take the booty to their homes and you take Allah's Apostle to your homes? If the Ansar took their way through a valley or a mountain pass, I would take the Ansar's valley or a mountain pass.
Read CompleteHadith 3779
Narrated Abu Huraira: The Prophet or Abul-Qasim said, If the Ansar took their way through a valley or a mountain pass, I would take Ansar's valley. And but for the migration, I would have been one of the Ansar. Abu Huraira used to say, The Prophet is not unjust (by saying so). May my parents be sacrificed for him, for the Ansar sheltered and helped him, or said a similar sentence.
Read CompleteHadith 3780
Narrated Sa`d's father: When the emigrants reached Medina. Allah's Apostle established the bond of fraternity between `Abdur-Rahman and Sa`d bin Ar-Rabi. Sa`d said to `Abdur-Rahman, I am the richest of all the Ansar, so I want to divide my property (between us), and I have two wives, so see which of the two you like and tell me, so that I may divorce her, and when she finishes her prescribed period (i.e. 'Idda) of divorce, then marry her. `Abdur-Rahman said, May Allah bless your family and property for you; where is your market? So they showed him the Qainuqa' market. (He went there and) returned with a profit in the form of dried yogurt and butter. He continued going (to the market) till one day he came, bearing the traces of yellow scent. The Prophet asked, What is this (scent)? He replied, I got married. The Prophet asked, How much Mahr did you give her? He replied, I gave her a datestone of gold or a gold piece equal to the weight of a date-stone. (The narrator, Ibrahim, is in doubt as to which is correct.)
Read Complete