THE BOOK OF THE OBLIGATIONS OF KHUMUS
Sahih Bukhari Hadith # 3094
Hadith on THE OBLIGATIONS OF KHUMUS of Sahih Bukhari 3094 is about The Book Of THE BOOK OF THE OBLIGATIONS OF KHUMUS as written by Imam Muhammad al-Bukhari. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter THE BOOK OF THE OBLIGATIONS OF KHUMUS has 65 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ ذَكَرَ لِيذِكْرًا مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِكَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ ، فَقَالَ مَالِكٌ : بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي أَهْلِي حِينَ مَتَعَ النَّهَارُ إِذَا رَسُولُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَأْتِينِي ، فَقَالَ : أَجِبْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى رِمَالِ سَرِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ جَلَسْتُ ، فَقَالَ : يَا مَالِ إِنَّهُ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ قَوْمِكَ أَهْلُ أَبْيَاتٍ ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَاقْبِضْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ ، فَقُلْتُ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَمَرْتَ بِهِ غَيْرِي ، قَالَ : اقْبِضْهُ أَيُّهَا الْمَرْءُ ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا ، فَقَالَ : هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ يَسْتَأْذِنُونَ ، قَالَ : نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا ، ثُمَّ جَلَسَ يَرْفَا يَسِيرًا ، ثُمَّ قَالَ : هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ ، قَالَ : نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَدَخَلَا فَسَلَّمَا فَجَلَسَا ، فَقَالَ عَبَّاسٌ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ ، فَقَالَ الرَّهْطُ : عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ ، قَالَ عُمَرُ : تَيْدَكُمْ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ ، قَالَ الرَّهْطُ : قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ ، فَقَالَ : أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ : قَالَا : قَدْ قَالَ ذَلِكَ ، قَالَ عُمَرُ : فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ ، ثُمَّ قَرَأَ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ إِلَى قَوْلِهِ قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6 فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ قَدْ أَعْطَاكُمُوهُ وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ ، فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ، قَالُوا : نَعَمْ ، ثُمَّ قَالَ : لِعَلِيٍّ وعَبَّاسٍ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ، قَالَ عُمَرُ : ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَكُنْتُ أَنَا وَلِيَّ أَبِي بَكْرٍ فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي تُكَلِّمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ جِئْتَنِي يَا عَبَّاسُ تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ ، وَجَاءَنِي هَذَا يُرِيدُ عَلِيًّا يُرِيدُ نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا ، فَقُلْتُ : لَكُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا ، قُلْتُ : إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا ، فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا فَبِذَلِكَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ ؟ ، قَالَ : الرَّهْطُ نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ ، فَقَالَ : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ ، قَالَا : نَعَمْ ، قَالَ : فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَإِنِّي أَكْفِيكُمَاهَا .
ہم سے اسحاق بن محمد فروی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن انس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے مالک بن اوس بن حدثان نے ( زہری نے بیان کیا کہ ) محمد بن جبیر نے مجھ سے ( اسی آنے والی ) حدیث کا ذکر کیا تھا۔ اس لیے میں نے مالک بن اوس کی خدمت میں خود حاضر ہو کر ان سے اس حدیث کے متعلق ( بطور تصدیق ) پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ دن چڑھ آیا تھا اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ‘ اتنے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک بلانے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ امیرالمؤمنین آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں اس قاصد کے ساتھ ہی چلا گیا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ایک تخت پر بوریا بچھائے ‘ بورئیے پر کوئی بچھونا نہ تھا ‘ صرف ایک چمڑے کے تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں سلام کر کے بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے فرمایا ‘ مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے تھے ‘ میں نے ان کے لیے کچھ حقیر سی امداد کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تم اسے اپنی نگرانی میں ان میں تقسیم کرا دو ‘ میں نے عرض کیا ‘ یا امیرالمؤمنین! اگر آپ اس کام پر کسی اور کو مقرر فرما دیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی اصرار کیا کہ نہیں ‘ اپنی ہی تحویل میں بانٹ دو۔ ابھی میں وہیں حاضر تھا کہ امیرالمؤمنین کے دربان یرفا آئے اور کہا کہ عثمان بن عفان ‘ عبدالرحمٰن بن عوف ‘ زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں انہیں اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات داخل ہوئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یرفا بھی تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور پھر اندر آ کر عرض کیا علی اور عباس رضی اللہ عنہما کو بھی اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں انہیں بھی اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات بھی اندر تشریف لے آئے۔ اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ یا امیرالمؤمنین! میرا اور ان کا فیصلہ کر دیجئیے۔ ان حضرات کا جھگڑا اس جائیداد کے بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نضیر کے اموال میں سے ( خمس کے طور پر ) عنایت فرمائی تھی۔ اس پر عثمان اور ان کے ساتھ جو دیگر صحابہ تھے کہنے لگے ‘ ہاں ‘ امیرالمؤمنین! ان حضرات میں فیصلہ فرما دیجئیے اور ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے بےفکر کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم ( انبیاء ) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔“ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اب عمر رضی اللہ عنہ، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم ہی لوگوں کو دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے ( جہاد کے سامان فراہم کرنے میں ) خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ ( دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں! ) پھر عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مخلص ) جائیداد پر قبضہ کیا اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں مصارف کیا کرتے تھے ‘ وہ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور اب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نائب مقرر ہوا۔ میری خلافت کو دو سال ہو گئے ہیں۔ اور میں نے بھی اس جائیداد کو اپنی تحویل میں رکھا ہے۔ جو مصارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں کیا کرتے تھے ویسا ہی میں بھی کرتا رہا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے اس طرز عمل میں سچا ‘ مخلص اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس مجھ سے گفتگو کرنے آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے کہ دونوں کا مقصد ایک تھا۔ جناب عباس! آپ تو اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنے بھتیجے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی میراث کا دعویٰ میرے سامنے پیش کرنا تھا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنی بیوی ( فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کا دعویٰ پیش کرنا تھا کہ ان کے والد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی میراث انہیں ملنی چاہئے ‘ میں نے آپ دونوں حضرات سے عرض کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرما گئے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی میراث تقسیم نہیں ہوتی ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ پھر مجھ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ میں ان جائیدادوں کو تمہارے قبضے میں دے دوں ‘ تو میں نے تم سے کہا ‘ دیکھو اگر تم چاہو تو میں یہ جائیداد تمہارے سپرد کر دیتا ہوں ‘ لیکن اس عہد اور اس اقرار پر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں کرتے رہے اور جو کام میں اپنی حکومت کے شروع سے کرتا رہا۔ تم نے اس شرط کو قبول کر کے درخواست کی کہ جائیدادیں ہم کو دے دو۔ میں نے اسی شرط پر دے دی ‘ حاضرین کہو میں نے یہ جائیدادیں اسی شرط پر ان کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا ‘ بیشک اسی شرط پر آپ نے دی ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ‘ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ میں نے اسی شرط پر یہ جائیدادیں آپ حضرات کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا بیشک۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ چاہتے ہو؟ ( کیا جائیداد کو تقسیم کرانا چاہتے ہو ) قسم اللہ کی! جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں میں تو اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ اگر تم سے اس کا انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر جائیداد میرے سپرد کر دو۔ میں اس کا بھی کام دیکھ لوں گا۔
Narrated Malik bin Aus: While I was at home, the sun rose high and it got hot. Suddenly the messenger of `Umar bin Al- Khattab came to me and said, The chief of the believers has sent for you. So, I went along with him till I entered the place where `Umar was sitting on a bedstead made of date-palm leaves and covered with no mattress, and he was leaning over a leather pillow. I greeted him and sat down. He said, O Malik! Some persons of your people who have families came to me and I have ordered that a gift should be given to them, so take it and distribute it among them. I said, O chief of the believers! I wish that you order someone else to do it. He said, O man! Take it. While I was sitting there with him, his doorman Yarfa' came saying, `Uthman, `Abdur-Rahman bin `Auf, Az-Zubair and Sa`d bin Abi Waqqas are asking your permission (to see you); may I admit them? `Umar said, Yes , So they were admitted and they came in, greeted him, and sat down. After a while Yarfa' came again and said, May I admit `Ali and `Abbas? `Umar said, yes. So, they were admitted and they came in and greeted (him) and sat down. Then `Abbas said, O chief of the believers! Judge between me and this (i.e. `Ali). They had a dispute regarding the property of Bani An-Nadir which Allah had given to His Apostle as Fai. The group (i.e. `Uthman and his companions) said, O chief of the believers! Judge between them and relieve both of them front each other. `Umar said, Be patient! I beseech you by Allah by Whose Permission the Heaven and the Earth exist, do you know that Allah's Apostle said, 'Our (i.e. prophets') property will not be inherited, and whatever we leave, is Sadaqa (to be used for charity),' and Allah's Apostle meant himself (by saying we'')? The group said, He said so. `Umar then turned to `Ali and `Abbas and said, I beseech you by Allah, do you know that Allah's Apostle said so? They replied, He said so. `Umar then said, So, I will talk to you about this matter. Allah bestowed on His Apostle with a special favor of something of this Fai (booty) which he gave to nobody else. `Umar then recited the Holy Verses: What Allah bestowed as (Fai) Booty on his Apostle (Muhammad) from them --- for this you made no expedition with either cavalry or camelry: But Allah gives power to His Apostles over whomever He will 'And Allah is able to do all things. 9:6) `Umar added So this property was especially given to Allah's Apostle, but, by Allah, neither did he take possession of it and leave your, nor did he favor himself with it to your exclusion, but he gave it to all of you and distributed it amongst you till this property remained out of it. Allah's Apostle used to spend the yearly expenses of his family out of this property and used to keep the rest of its revenue to be spent on Allah 's Cause. Allah 's Apostle kept on doing this during all his lifetime. I ask you by Allah do you know this? They replies in the affirmative. `Umar then said to `Ali and `Abbas. I ask you by Allah, do you know this? `Umar added, When Allah had taken His Prophet unto Him, 'Abu Bakr said, 'I am the successor of Allah's Apostle so, Abu Bakr took over that property and managed it in the same way as Allah's Apostle used to do, and Allah knows that he was true, pious and rightlyguided, and he was a follower of what was right. Then Allah took Abu Bakr unto Him and I became Abu Bakr's successor, and I kept that property in my possession for the first two years of my Caliphate, managing it in the same way as Allah's Apostle used to do and as Abu Bakr used to do, and Allah knows that I have been true, pious, rightly guided, and a follower of what is right. Now you both (i.e. 'Ah and `Abbas) came to talk to me, bearing the same claim and presenting the same case; you, `Abbas, came to me asking for your share from your nephew's property, and this man, i.e. `Ali, came to me asking for his wife's share from her father's property. I told you both that Allah's Apostle said, 'Our (prophets') properties are not to be inherited, but what we leave is Sadaqa (to be used for charity).' When I thought it right that I should hand over this property to you, I said to you, 'I am ready to hand over this property to you if you wish, on the condition that you would take Allah's Pledge and Convention that you would manage it in the same way as Allah's Apostle used to, and as Abu Bakr used to do, and as I have done since I was in charge of it.' So, both of you said (to me), 'Hand it over to us,' and on that condition I handed it over to you. So, I ask you by Allah, did I hand it over to them on this condition? The group aid, Yes. Then `Umar faced `Ali and `Abbas saying, I ask you by Allah, did I hand it over to you on this condition? They said, Yes. He said, Do you want now to give a different decision? By Allah, by Whose Leave both the Heaven and the Earth exist, I will never give any decision other than that (I have already given). And if you are unable to manage it, then return it to me, and I will do the job on your behalf.
More Hadiths From : THE BOOK OF THE OBLIGATIONS OF KHUMUS
Hadith 3091
Narrated `Ali: I got a she-camel in my share of the war booty on the day (of the battle) of Badr, and the Prophet had given me a she-camel from the Khumus. When I intended to marry Fatima, the daughter of Allah's Apostle, I had an appointment with a goldsmith from the tribe of Bani Qainuqa' to go with me to bring Idhkhir (i.e. grass of pleasant smell) and sell it to the goldsmiths and spend its price on my wedding party. I was collecting for my she-camels equipment of saddles, sacks and ropes while my two shecamels were kneeling down beside the room of an Ansari man. I returned after collecting whatever I collected, to see the humps of my two she-camels cut off and their flanks cut open and some portion of their livers was taken out. When I saw that state of my two she-camels, I could not help weeping. I asked, Who has done this? The people replied, Hamza bin `Abdul Muttalib who is staying with some Ansari drunks in this house. I went away till I reached the Prophet and Zaid bin Haritha was with him. The Prophet noticed on my face the effect of what I had suffered, so the Prophet asked. What is wrong with you. I replied, O Allah's Apostle! I have never seen such a day as today. Hamza attacked my two she-camels, cut off their humps, and ripped open their flanks, and he is sitting there in a house in the company of some drunks. The Prophet then asked for his covering sheet, put it on, and set out walking followed by me and Zaid bin Haritha till he came to the house where Hamza was. He asked permission to enter, and they allowed him, and they were drunk. Allah's Apostle started rebuking Hamza for what he had done, but Hamza was drunk and his eyes were red. Hamza looked at Allah's Apostle and then he raised his eyes, looking at his knees, then he raised up his eyes looking at his umbilicus, and again he raised up his eyes look in at his face. Hamza then said, Aren't you but the slaves of my father? Allah's Apostle realized that he was drunk, so Allah's Apostle retreated, and we went out with him.
Read CompleteHadith 3092
Narrated `Aisha: (mother of the believers) After the death of Allah 's Apostle Fatima the daughter of Allah's Apostle asked Abu Bakr As-Siddiq to give her, her share of inheritance from what Allah's Apostle had left of the Fai (i.e. booty gained without fighting) which Allah had given him.
Read CompleteHadith 3093
Abu Bakr said to her, Allah's Apostle said, 'Our property will not be inherited, whatever we (i.e. prophets) leave is Sadaqa (to be used for charity). Fatima, the daughter of Allah's Apostle got angry and stopped speaking to Abu Bakr, and continued assuming that attitude till she died. Fatima remained alive for six months after the death of Allah's Apostle. She used to ask Abu Bakr for her share from the property of Allah's Apostle which he left at Khaibar, and Fadak, and his property at Medina (devoted for charity). Abu Bakr refused to give her that property and said, I will not leave anything Allah's Apostle used to do, because I am afraid that if I left something from the Prophet's tradition, then I would go astray. (Later on) `Umar gave the Prophet's property (of Sadaqa) at Medina to `Ali and `Abbas, but he withheld the properties of Khaibar and Fadak in his custody and said, These two properties are the Sadaqa which Allah's Apostle used to use for his expenditures and urgent needs. Now their management is to be entrusted to the ruler. (Az-Zuhrl said, They have been managed in this way till today. )
Read CompleteHadith 3095
Narrated Ibn `Abbas: The delegates of the tribe of `Abdul-Qais came and said, O Allah's Apostle! We are from the tribe of Rabi`a, and there is the infidels of the tribe of Mudar intervening between you and us, so we cannot come to you except in the Sacred Months. So please order us some instructions that we may apply it to ourselves and also invite our people whom we left behind us to observe as well. The Prophet said, I order you (to do) four (things) and forbid you (to do) four: I order you to believe in Allah, that is, to testify that None has the right to be worshipped but Allah (the Prophet pointed with his hand); to offer prayers perfectly; to pay Zakat; to fast the month of Ramadan, and to pay the Khumus (i.e. one-fifth) of the war booty to Allah and I forbid you to use Ad-dubba', An-Naqir, Al-Hantam and Al-Muzaffat (i.e. utensils used for preparing alcoholic drinks). (See Hadith No. 50, Vol. 1).
Read Complete