THE BOOK OF JIHAD (Fighting for Allah’s Cause)
Sahih Bukhari Hadith # 3045
Hadith on JIHAD (Fighting for Allah’s Cause) of Sahih Bukhari 3045 is about The Book Of THE BOOK OF JIHAD (Fighting for Allah’s Cause) as written by Imam Muhammad al-Bukhari. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter THE BOOK OF JIHAD (Fighting for Allah’s Cause) has 309 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَهْطٍ سَرِيَّةً عَيْنًا ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَأَةِ وَهُوَ بَيْنَ عُسْفَانَ ومَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ ، يُقَالُ لَهُمْ : بَنُو لَحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ قَرِيبًا مِنْ مِائَتَيْ رَجُلٍ كُلُّهُمْ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ تَمْرًا تَزَوَّدُوهُ مِنْ الْمَدِينَةِ ، فَقَالُوا : هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ فَلَمَّا رَآهُمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ وَأَحَاطَ بِهِمُ الْقَوْمُ ، فَقَالُوا لَهُمْ : انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ وَلَا نَقْتُلُ مِنْكُمْ أَحَدًا ، قَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِيرُ السَّرِيَّةِ : أَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ لَا أَنْزِلُ الْيَوْمَ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ ، اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةٍ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ بِالْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ الْأَنْصَارِيُّ وابْنُ دَثِنَةَ وَرَجُلٌ آخَرُ ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَأَوْثَقُوهُمْ ، فَقَالَ : الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي فِي هَؤُلَاءِ لَأُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَأَبَى فَقَتَلُوهُ ، فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ وابْنِ دَثِنَةَ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا . فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ أَنَّ بِنْتَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ ، فَأَخَذَ ابْنًا لِي وَأَنَا غَافِلَةٌ حِينَ أَتَاهُ ، قَالَتْ : فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فِي وَجْهِي ، فَقَالَ : تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِي يَدِهِ ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرٍ وَكَانَتْ تَقُولُ : إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنَ اللَّهِ رَزَقَهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ ، قَالَ لَهُمْ : خُبَيْبٌ ذَرُونِي أَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ قَالَ : لَوْلَا أَنْ تَظُنُّوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَطَوَّلْتُهَا اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ فَقَتَلَهُ ابْنُ الْحَارِثِ فَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ لِكُلِّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ يَوْمَ أُصِيبَ ، فَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ وَمَا أُصِيبُوا وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ كُفَّارِ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ لِيُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ ، وَكَانَ قَدْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَبُعِثَ عَلَى عَاصِمٍ مِثْلُ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ ، فَحَمَتْهُ مِنْ رَسُولِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى أَنْ يَقْطَعَ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئًا .
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ اس سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی ‘ وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دوست ‘ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی ‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا اور جماعت روانہ ہو گئی۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کو کسی نے خبر دے دی اور اس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی ‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں ‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ ( گٹھلیاں ) تو یثرب ( مدینہ ) کی ( کھجوروں کی ) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آخر عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی ‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ ‘ تم سے ہمارا عہد و پیمان ہے۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئیے اور عاصم رضی اللہ عنہ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کر ڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے، یہ خبیب انصاری رضی اللہ عنہ ابن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک تیسرے صحابی ( عبداللہ بن طارق بلوی رضی اللہ عنہ ) تھے۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کر ان کو ان سے باندھ لیا ‘ عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا ‘ بلکہ میں تو انہیں کا اسوہ اختیار کروں گا ‘ ان کی مراد شہداء سے تھی۔ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کر دیا۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا، خبیب رضی اللہ عنہ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی بن کر رہے، ( زہری نے بیان کیا ) کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی اور انہیں حارث کی بیٹی ( زینب رضی اللہ عنہا ) نے خبر دی کہ جب ( ان کو قتل کرنے کے لیے ) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لیے استرا مانگا۔ انہوں نے استرا دے دیا، ( زینب نے بیان کیا ) پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا ‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی ‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا ‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہو گا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا ‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ کی قسم! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجی تھی۔ پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے ‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ پھر خبیب رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں ( قتل سے ) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اور لمبا کرتا۔ اے اللہ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے، ( پھر یہ اشعار پڑھے ) ”جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں ‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو۔ آخر حارث کے بیٹے ( عقبہ ) نے ان کو شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ سے ہی ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے ( قتل سے پہلے ) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ ( مہم کے امیر ) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دیدے ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دو چار ہوئی تھی۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لیے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار ( عقبہ بن ابی معیط ) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent a Sariya of ten men as spies under the leadership of `Asim bin Thabit al-Ansari, the grandfather of `Asim bin `Umar Al-Khattab. They proceeded till they reached Hadaa, a place between 'Usfan, and Mecca, and their news reached a branch of the tribe of Hudhail called Bani Lihyan. About two-hundred men, who were all archers, hurried to follow their tracks till they found the place where they had eaten dates they had brought with them from Medina. They said, These are the dates of Yathrib (i.e. Medina), and continued following their tracks When `Asim and his companions saw their pursuers, they went up a high place and the infidels circled them. The infidels said to them, Come down and surrender, and we promise and guarantee you that we will not kill any one of you `Asim bin Thabit; the leader of the Sariya said, By Allah! I will not come down to be under the protection of infidels. O Allah! Convey our news to Your Prophet. Then the infidels threw arrows at them till they martyred `Asim along with six other men, and three men came down accepting their promise and convention, and they were Khubaib-al-Ansari and Ibn Dathina and another man So, when the infidels captured them, they undid the strings of their bows and tied them. Then the third (of the captives) said, This is the first betrayal. By Allah! I will not go with you. No doubt these, namely the martyred, have set a good example to us. So, they dragged him and tried to compel him to accompany them, but as he refused, they killed him. They took Khubaid and Ibn Dathina with them and sold them (as slaves) in Mecca (and all that took place) after the battle of Badr. Khubaib was bought by the sons of Al-Harith bin 'Amir bin Naufal bin `Abd Manaf. It was Khubaib who had killed Al-Harith bin 'Amir on the day (of the battle of) Badr. So, Khubaib remained a prisoner with those people. Narrated Az-Zuhri: 'Ubaidullah bin 'Iyyad said that the daughter of Al-Harith had told him, When those people gathered (to kill Khubaib) he borrowed a razor from me to shave his pubes and I gave it to him. Then he took a son of mine while I was unaware when he came upon him. I saw him placing my son on his thigh and the razor was in his hand. I got scared so much that Khubaib noticed the agitation on my face and said, 'Are you afraid that I will kill him? No, I will never do so.' By Allah, I never saw a prisoner better than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating of a bunch of grapes in his hand while he was chained in irons, and there was no fruit at that time in Mecca. The daughter of Al-Harith used to say, It was a boon Allah bestowed upon Khubaib. When they took him out of the Sanctuary (of Mecca) to kill him outside its boundaries, Khubaib requested them to let him offer two rak`at (prayer). They allowed him and he offered Two rak`at and then said, Hadn't I been afraid that you would think that I was afraid (of being killed), I would have prolonged the prayer. O Allah, kill them all with no exception. (He then recited the poetic verse):-- I being martyred as a Muslim, Do not mind how I am killed in Allah's Cause, For my killing is for Allah's Sake, And if Allah wishes, He will bless the amputated parts of a torn body Then the son of Al Harith killed him. So, it was Khubaib who set the tradition for any Muslim sentenced to death in captivity, to offer a two-rak`at prayer (before being killed). Allah fulfilled the invocation of `Asim bin Thabit on that very day on which he was martyred. The Prophet informed his companions of their news and what had happened to them. Later on when some infidels from Quraish were informed that `Asim had been killed, they sent some people to fetch a part of his body (i.e. his head) by which he would be recognized. (That was because) `Asim had killed one of their chiefs on the day (of the battle) of Badr. So, a swarm of wasps, resembling a shady cloud, were sent to hover over `Asim and protect him from their messenger and thus they could not cut off anything from his flesh.
More Hadiths From : THE BOOK OF JIHAD (Fighting for Allah’s Cause)
Hadith 2782
Narrated `Abdullah bin Masud: I asked Allah's Apostle, O Allah's Apostle! What is the best deed? He replied, To offer the prayers at their early stated fixed times. I asked, What is next in goodness? He replied, To be good and dutiful to your parents. I further asked, what is next in goodness? He replied, To participate in Jihad in Allah's Cause. I did not ask Allah's Apostle anymore and if I had asked him more, he would have told me more.
Read CompleteHadith 2783
Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle said, There is no Hijra (i.e. migration) (from Mecca to Medina) after the Conquest (of Mecca), but Jihad and good intention remain; and if you are called (by the Muslim ruler) for fighting, go forth immediately.
Read CompleteHadith 2784
Narrated `Aisha: (That she said), O Allah's Apostle! We consider Jihad as the best deed. Should we not fight in Allah's Cause? He said, The best Jihad (for women) is Hajj-Mabrur (i.e. Hajj which is done according to the Prophet's tradition and is accepted by Allah).
Read CompleteHadith 2785
Narrated Abu Huraira: A man came to Allah's Apostle and said, Instruct me as to such a deed as equals Jihad (in reward). He replied, I do not find such a deed. Then he added, Can you, while the Muslim fighter is in the battle-field, enter your mosque to perform prayers without cease and fast and never break your fast? The man said, But who can do that? Abu- Huraira added, The Mujahid (i.e. Muslim fighter) is rewarded even for the footsteps of his horse while it wanders bout (for grazing) tied in a long rope.
Read CompleteHadith 2786
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: Somebody asked, O Allah's Apostle! Who is the best among the people? Allah's Apostle replied A believer who strives his utmost in Allah's Cause with his life and property. They asked, Who is next? He replied, A believer who stays in one of the mountain paths worshipping Allah and leaving the people secure from his mischief.
Read Complete