Chapters on Tafsir
Jami at Tirmidhi Hadith # 3180
Hadith on Chapters on Tafsir of Sahih Bukhari 3180 is about The Book Of Chapters on Tafsir as written by Imam Abu Isa Muhammad at-Tirmizi. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter Chapters on Tafsir has 420 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا، فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي ، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، وَقَامَ رَجُلٌ مِنَ بَنِي الْخَزْرَجِ وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، فَقَالَ: كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنَ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ، حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ، فَعَثَرَتْ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ، فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ ؟ فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ ؟ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَيْءٍ، قَالَتْ: فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ، قُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَكَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، وَوُعِكْتُ، فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ، فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَقَالَتْ أُمِّي: مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ ؟ قَالَتْ: فَأَخْبَرْتُهَا وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ، فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقِيلَ فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قَالَتْ: قُلْتُ: وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: نَعَمْ، وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَكَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ، فَقَالَ لِأُمِّي: مَا شَأْنُهَا ؟ قَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ: أَقَسَمْتُ عَلَيْكِ يَا بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ فَرَجَعْتُ، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا، وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، فَبَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَقَدِ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ ، قَالَتْ: وَقَدْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا، فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي، فَقُلْتُ: أَجِبْهُ، قَالَ: فَمَاذَا أَقُولُ ؟ فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي فَقُلْتُ: أَجِيبِيهِ، قَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا ؟ قَالَتْ: فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لِي لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُكُمْ، وَلَئِنْ قُلْتُ: إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا، قَالَتْ: وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18 قَالَتْ: وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ، فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَيَقُولُ: الْبُشْرَى يَا عَائِشَةُ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ ، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُكُمَا وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسُوسُهُ وَيَجْمَعُهُ، وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ، قَالَتْ: فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ سورة النور آية 22 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، يَعْنِي: أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَعْنِي: مِسْطَحًا، إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى، وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا، وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَعْمَرٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، وعبيد الله بن عبد الله، عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا: ”لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیر موجودگی میں داخل نہیں ہوا، وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہا ہوں، اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا، سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں رہا ہے“، ( یہ سن کر ) سعد بن معاذ رضی الله عنہ نے کھڑے ہو کر، عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں ان کی گردنیں اڑا دوں، ( یہ سن کر ) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے ( سعد بن معاذ سے مخاطب ہو کر ) کہا: آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں، سنئیے، اللہ کی قسم! اگر یہ ( تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے ) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑا دیں، یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس و خزرج کے درمیان مسجد ہی میں فساد عظیم برپا ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا، ( عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی، جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی ( قضائے حاجت کی ) ضرورت سے گھر سے باہر نکلی، میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں، وہ ( راستہ میں ) ٹھوکر کھائی تو کہہ اٹھیں: مسطح تباہ برباد ہو! میں نے ان سے کہا: آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں؟ تو وہ چپ رہیں، پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا، مسطح ہلاک ہو، میں نے پھر ( ٹوکا ) میں نے کہا: آپ کیسی ماں ہیں؟ اپنے بیٹے کو گالی ( بد دعا ) دیتی ہیں؟ وہ پھر خاموش رہیں، پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھر یہی لفظ دہرایا تو میں نے ڈانٹا ( اور جھڑک دیا ) کیسی ( خراب ) ماں ہیں آپ؟ اپنے ہی بیٹے کو برا بھلا کہہ رہی ہیں، وہ بولیں: ( بیٹی ) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں، میں نے پوچھا: میرے کس معاملے میں؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں، میں نے ان سے پوچھا: کیا ایسا ہوا؟ ( یہ ساری باتیں پھیل گئیں؟ ) انہوں نے کہا: ہاں، قسم اللہ کی! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی، تو ان میں جس کام کے لیے نکلی تھی، نکلی ہی نہیں، مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی، ( بلکہ ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک لڑکا کر دیا، ( اور میں اپنے ابا کے گھر آ گئی ) میں گھر میں داخل ہوئی تو ( اپنی ماں ) ام رومان کو نیچے پایا اور ( اپنے ابا ) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا، میری ماں نے کہا: بیٹی! کیسے آئیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے انہیں بتا دیا اور انہیں ساری باتیں ( اور سارا قصہ ) سنا دیا، مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جو مجھے پہنچی، انہوں نے کہا: بیٹی! اپنے آپ کو سنبھالو، کیونکہ اللہ کی قسم! بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین و جمیل عورت ہو جس سے وہ مرد ( بے انتہا ) محبت کرتا ہو، اس سے اس کی سوکنیں حسد نہ کرتی ( اور جلن نہ رکھتی ) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں، غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا، میں نے پوچھا: کیا میرے ابو جان کو بھی یہ بات معلوم ہو چکی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے ( پھر ) پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان باتوں سے واقف ہو چکے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، ( یہ سن کر ) میں غم سے نڈھال ہو گئی اور رو پڑی، ابوبکر رضی الله عنہ چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے، میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے، میری ماں سے پوچھا، اسے کیا ہوا؟ ( یہ کیوں رو رہی ہے؟ ) انہوں نے کہا: اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں ( اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں ) وہ اسے بھی معلوم ہو گئی ہیں، ( یہ سن کر ) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں، ( مگر ) انہوں نے کہا: اے میری ( لاڈلی ) بیٹی! میں تمہیں قسم دلا کر کہتا ہوں تو اپنے گھر لوٹ جا، میں اپنے گھر واپس ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی ( بریرہ ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی، اس نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی، ہاں، بس یہ بات ہے کہ ( کام کرتے کرتے تھک کر ) سو جاتی ہیں اور بکری آ کر گندھا ہوا آٹا کھا جاتی ہے، بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا، ( باتیں نہ بنا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ سچ بتا ( اس سے اس پوچھ تاچھ میں ) وہ ( اپنے مقام و مرتبہ سے ) نیچے اتر آئے، اس نے کہا: سبحان اللہ! پاک و برتر ہے اللہ کی ذات، قسم اللہ کی! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے، پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہو گئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! قسم اللہ کی، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولا ہے ۱؎، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو کر مرے، میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آ گئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔ عصر پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لے آئے، اور ہمارے پاس پہنچے، میرے ماں باپ ہمارے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتین پڑھی، اللہ کی شایان شان حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”حمد و صلاۃ کے بعد: ”عائشہ! اگر تو برائی کی مرتکب ہو گئی یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے“، اسی دوران انصار کی ایک عورت آ کر دروازے میں بیٹھ گئی تھی، میں نے عرض کیا: اس عورت کے سامنے ( اس طرح کی ) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی؟ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی، میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی، ان سے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا: میں کیا جواب دوں؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کہی ہے اس بارے میں ( میری طرف سے ) صفائی دیجئیے، انہوں نے کہا: کیا کہوں میں؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا، تو میں نے کلمہ شہادت ادا کیا، اللہ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا بیان کی، پھر میں نے کہا: سنئیے، قسم اللہ کی! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی ( بےگناہ ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے نہیں کیا، تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کر لیا ہے، اور میں قسم اللہ کی! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی ( میں نے مثال دینے کے لیے ) یعقوب علیہ السلام کا نام ڈھونڈا اور یاد کیا، مگر میں اس پر قادر نہ ہو سکی، ( مجھے ان کا نام یاد نہ آ سکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا ) مگر یوسف علیہ السلام کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» کہا ۲؎۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہو گئے، پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی، آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے: ”اے عائشہ! خوش ہو جاؤ اللہ نے تمہاری براۃ میں آیت نازل فرما دی ہے“، مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہو کر آپ کا شکریہ ادا کر، میں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی، نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی، نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان مند اور شکر گزار ہوں گی جس نے میری براۃ میں آیت نازل فرمائی، آپ لوگوں نے تو میری غیبت و تہمت سنی، لیکن اس پر تردید و انکار نہ کیا، اور نہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں: رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی و دینداری کی وجہ سے بچا لیا، انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا، اچھی و بھلی بات ہی کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ ( شریک بہتان ہو کر ) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہو گئی، اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح، حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن ابی بن سلول تھے، اور یہی منافق ( فتنہ پردازوں کا سردار و سرغنہ ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا، یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی، جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی، ابوبکر رضی الله عنہ نے قسم کھا لی کہ اب وہ ( اس احسان فراموش و بدگو ) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے، اس پر آیت «ولا يأتل أولوا الفضل منكم والسعة» ۳؎ نازل ہوئی، اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں، «أن يؤتوا أولي القربى والمساكين والمهاجرين في سبيل الله» ۴؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔ «ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم» ۵؎ ( یہ آیت سن کر ) ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: کیوں نہیں، قسم اللہ کی! ہمارے رب! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے، پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس حدیث کو یونس بن یزید، معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبیداللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔
Narrated 'Aishah: What was said about me had been said, and I myself was unaware of it, the Messenger of Allah (ﷺ) got up and addressed the people. He recited the Tashahhud and after praising and expressing gratitude to Allah, as He deserved, he said: 'To proceed: O people! Give me your opinion regarding those people who made a forged story against my wife. By Allah, I do not know anything bad about her at all. By Allah, they accused her of being with a man about whom I have never known anything bad, and he never entered my house unless I was present there, and whenever I went on a journey, he went with me.' Sa'd bin Mu'adh [may Allah be pleased with him] got up and said: 'O Messenger of Allah (ﷺ)! Allow me to chop their heads off!' Then a man from Al-Khazraj, to whom the mother of Hassan bin Thabit was a relative, got up and said (to Sa'd): 'You have told a lie! By Allah, if those persons were from Al-Aws, you would not like to chop their heads.' It was probable that some evil would take place between Aws and Khazraj in the Masjid while I was unaware of that. In the evening of that day, I went out for some of my needs, and Umm Mistah was accompanying me. On our return, Umm Mistah stumbled and said: 'Let Mistah be ruined!' I said to her, 'O mother! Why do you abuse your son?' On that Umm Mistah became silent for a while, and stumbling again, she said: 'Let Mistah be ruined!' I said to her: 'O mother! Why do you abuse your son?' She stumbled for the third time and said: 'Let Mistah be ruined!' I said to her: 'O mother! Why do you abuse your son?' Upon that she said: 'By Allah! I do not abuse him except because of you.' I asked her: 'Concerning what of my affairs?' So she disclosed the whole story to me. I said: 'Has this really happened?' She replied: 'Yes, by Allah!' I returned to my house, so astonished, that I did not know for what purpose I had gone out. Then I became sick and said to the Messenger of Allah (ﷺ) 'Send me to my father's house.' So he sent a servant with me, and when I entered the house, I found Umm Ruman downstairs, while Abu Bakr was reciting something upstairs. My mother asked: 'What has brought you, O daughter?' She said: I informed her and mentioned the whole story to her, but she did not feel as I did about it. She said: 'O my daughter! Do not worry much about this matter, for there is never a charming lady loved by her husband who has other wives, but that they feel jealous of her and speak badly of her.' But she did not feel the same about it as I did. I asked her: 'Does my father know about it?' She said 'Yes.' I asked: 'Does the Messenger of Allah (ﷺ) know about it too?' She said 'Yes, the Messenger of Allah (ﷺ) also knows about it.' Tears filled my eyes and I wept. Abu Bakr, who was reading upstairs, heard my voice, and came down asking my mother: 'What is the matter with her?' She said: 'She has heard what has been said about her.' On that Abu Bakr wept and said: 'I beseech you, by Allah, O my daughter, to go back to your home.' I went back to my home, and the Messenger of Allah (ﷺ) had come to my house asking my maid-servant about me. The maid-servant said: 'By Allah! I do not know of any fault or defect in her character except that she sleeps and lets the sheep enter and eat her dough.' On that, some of the Prophet's Companions spoke harshly to her and said: 'Tell the truth to the Messenger of Allah (ﷺ).' Finally, they told her of the slander and she said: 'Subhan Allah! By Allah, I know nothing against her except what a goldsmith knows about a piece of pure gold.' Then this news reached the man who was accused, and he said: 'Subhan Allah! By Allah, I have never uncovered the private parts of any woman.' Later, that man was martyred in Allah's Cause. Then the next morning, my parents came to pay me a visit and they stayed with me until the Messenger of Allah (ﷺ) came to me, after he performed the 'Asr prayer. He came to me and while my parents were sitting around me on my right and my left. The Prophet (ﷺ) said the Tashahhud, praised and glorified Allah and said: 'Now then, O 'Aishah! If you have committed a bad deed, or you have wronged (yourself), then repent to Allah, as Allah accepts the repentance from His worshipers.' An Ansari woman had come and was sitting near the gate. I said to the Prophet (ﷺ): 'Isn't it improper that you speak in such a way in the presence of this lady?' The Messenger of Allah (ﷺ) then gave a piece of advice and I turned to my father and requested him to reply to him. My father said: 'What should I say?' Then I turned to my mother and asked her to answer him. She said: 'What should I say?' When my parents did not reply to the Prophet (ﷺ), I said the Tashahhud, praised and glorified Allah as His due, and I said: 'Then, by Allah! If I were to tell you that I have not done (this) and Allah, the Mighty and Sublime, is witness that I am telling the truth, that would not be of any use to me on your part, because you (people) have spoken about it and your hearts have absorbed it (as truth); and if I were to tell you that I have done this sin, and Allah knows that I have not done it, then you will say: 'She has confessed her guilt.' By Allah! I do not see a suitable example for me and you except the example of - and I could not remember Ya'qbus name - Yusuf's father when he said: So patience is most fitting. And it is Allah Whose help can be sought against that which you describe (12:18). She said: It was at that time that Revelation came to the Messenger of Allah (ﷺ), and we remained silent. Then the Revelation was over, and I noticed the signs of happiness on his face while he was wiping (the sweat) from his forehead, and saying: 'Have the good tidings O 'Aishah! Allah has revealed your innocence.' At that time I was extremely angry. My parents said to me: 'Get up and go to him.' I said: 'By Allah, I will not do it,and will not thank him nor either of you, but I will thank Allah, Who has revealed my innocence. You have heard (this story) but neither of you have denied it, nor have you changed it (to defend me).' 'Aishah used to say: But as regards to Zainab bint Jahsh, Allah protected her because of her piety. She did not say anything except good (about me). But her sister, Hamnah was ruined among those who were ruined. Those who used to speak evil about me were Mistah, Hassan bin Thabit, and the hypocrite 'Abdullah bin Ubayy [bin Salul] and [it is he who] used to spread that news and tempt others to speak of it, and it was he and Hamnah who had the greater share therein. Abu Bakr took an oath that he would never do any favor for Mistah at all. Then Allah, Most High, revealed this Ayah: 'Let not those among you who are blessed with graces and wealth' [until the end of the Ayah] referring to Abu Bakr: 'to give their kinsmen, the poor, and those who left their homes for Allah's Cause.' - meaning Mistah - up to His saying: Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful (24:22).' On that, Abu Bakr said: 'Yes, by Allah! O our Lord! We wish that You forgive us.' So he returned to what he had been doing.
More Hadiths From : Chapters on Tafsir
Hadith 2950
Narrated Ibn 'Abbas: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Whoever says (something) about the Qur'an without knowledge, then let him take his seat in the Fire.
Read CompleteHadith 2951
Narrated Ibn 'Abbas: that the Prophet (ﷺ) said: Beware of narrating from me except what I taught you, for whoever lies about me on purpose, then let him take his seat in the Fire. And whoever says (something) about the Qur'an according to his (own) opinion, then let him take his seat in the Fire.
Read CompleteHadith 2952
Narrated Jundab bin 'Abdullah: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Whoever says (something) about the Qur'an according to his own opinion and he is correct, yet he has committed a mistake.
Read CompleteHadith 2954
Narrated 'Adiyy bin Hatim: that the Prophet (ﷺ) said: The Jews are those who Allah is wrath with, and the Christians have strayed.
Read Complete